ساری ہمدردیاں پی ٹی آئی کارکنان کے ساتھ!

جمعرات 28 نومبر 2024
author image

فہیم پٹیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

26 نومبر کو ڈی چوک پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کارکنوں پر جتنا ظلم ریاست نے کیا، لگ بھگ اتنا ہی پی ٹی آئی قیادت نے بھی کیا۔

اس رات وہاں کیا ہوا، اس کی کچھ تفصیلات پیش کیے دیتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اسلام آباد کا موسم اب ایسا نہیں رہا کہ کھلے آسمان تلے راتیں گزاری جاسکیں، یعنی کارکن وہاں کیسے رہیں گے اس حوالے سے نہ تو کوئی انتظام تھا اور نہ اس بارے میں کچھ سوچا گیا تھا۔

اگر سنگجانی پر رکنے والی بات پر اتفاق ہوجاتا تو کئی فوائد مل سکتے تھے، جیسے کارکنوں کو رکنے کے لیے بہتر جگہ مل جاتی، انتظامات بہتر کیے جاسکتے تھے، پی ٹی آئی کو رک کر مستقبل کا لائحہ عمل بنانے کا وقت مل جاتا، پنجاب اور دیگر علاقوں سے نئے قافلے پہنچ جاتے جس سے طاقت میں اضافہ ممکن تھا اور حکومت کو مطالبات منوانے کے لیے دباؤ میں لایا جاسکتا تھا، مگر ڈی چوک کو ہاتھ لگانے کے جنون نے سب کچھ خراب کردیا۔

دوسری بات یہ کہ رات 8 بجے سے یہ خبریں آنا شروع ہوچکی تھیں کہ بڑے آپریشن کی تیاری ہورہی ہے اور 11 بجے اس کام کا آغاز ہوا، لیکن ان 3 گھنٹوں میں پی ٹی آئی قیادت نے اس حوالے سے کوئی پلان ترتیب نہیں دیا کہ اپنے کارکنوں کی حفاظت کے لیے کیا کیا جائے؟

جب آپریشن کا باقاعدہ آغاز ہوا تو سڑک پر یا تو پولیس اور سیکیورٹی اہلکار تھے یا پھر پی ٹی آئی کارکنان، اور ایسے کارکنان جنہیں اسلام آباد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ یعنی کہاں جانا ہے، کہاں چھپنا ہے، کہاں رات گزارنی ہے، کس طرح محفوظ مقام تک پہنچنا ہے، اور اسی انجانے میں کئی کارکنان پولیس کے ہتھے چڑھ گئے جن پر دہشتگردی کے مقدمات درج ہورہے ہیں اور ان کے دفاع کے لیے اب تک قیادت کی جانب سے کچھ نہیں کیا گیا۔

26 نومبر کی سہ پہر کئی کارکنان سے بات ہوئی، ایسا جذبہ کم ہی دیکھا گیا ہے۔ لوگ ہر طرح کے حالات کے لیے تیار تھے اور بار بار اپنے عزم کا اظہار کررہے تھے کہ چاہے کچھ ہوجائے، عمران خان کی رہائی سے قبل یہاں سے نہیں جائیں گے۔ کئی لوگوں نے تو یہ بھی بتایا کہ وہ 1 ماہ کا راشن اپنے ساتھ لائے ہیں، لیکن جہاں ایک طرف اس طرح کا جوش و جذبہ تھا، وہاں پارٹی قیادت سے متعلق شدید تحفظات بھی تھے۔ کارکنان کو اس بات کا ڈر تھا کہ علی امین گنڈاپور اس بار بھی شاید انہیں اکیلا چھوڑ جائیں، اور آخر میں یہ خدشات ٹھیک بھی ثابت ہوئے۔

اب بات کرتے ہیں اس اہم ترین معاملے کی کہ آپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے کتنے کارکن مارے گئے، لیکن ہم اس حوالے سے یکسو ہوں اس سے پہلے پی ٹی آئی قیادت کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر لیڈر اپنے الگ اعداد و شمار بیان کررہا ہے۔ گزشتہ روز علی امین گنڈاپور نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سینکڑوں کارکن شہید ہوئے، شام میں لطیف کھوسہ صاحب نے 250 افراد کا ذکر کیا اور رات میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے 20 کارکنان کی اموات کنفرم کیں۔ دوسری جانب اسپتال ذرائع 3 سے 4 افراد کی ہلاکت کا ذکر کررہے ہیں۔

اس پوری صورتحال میں ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس دور میں اب کوئی چھوٹی چیز بھی چھپانا ممکن نہیں ہے تو سینکڑوں لاشوں کو کیسے غائب کیا جاسکتا ہے؟ اس رات یقیناً فائرنگ ہوئی اور شدید ہوئی، شیلنگ ہوئی، ہنگامہ ہوا، لیکن پارٹی قیادت اگر اس وقت اپنے کارکنان کے ساتھ کھڑی نہ ہوسکی تو کم از کم اس معاملے میں تو پیروی کی جائے کہ آخر اس کے کتنے کارکنان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؟ سب سے پہلے تو قیادت کو ناموں کے ساتھ ایک فہرست جاری کرنی چاہیے کہ اس پوری کارروائی میں کون اور کتنے کارکنان جان کی بازی ہارے، ان کا تعلق کہاں سے تھا اور ان کی ڈیڈ باڈیز اب کہاں ہیں۔ اگر جسد خاکی نہیں مل رہے تو ان کے غائب ہونے کی رپورٹ درج کروائی جائیں، کم از کم یہ تو ثابت کریں کہ پارٹی کا اپنے اتنے کارکنان سے رابطہ نہیں ہورہا۔ ویڈیوز، تصاویر، مسنگ پرسنز، جو کچھ بھی ہے وہ سامنے لایا جائے تاکہ ان کے دلائل پر یقین کیا جاسکے۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا سب کچھ کہہ دیا مگر ریاست کے کرتوت پر خاموشی رکھی گئی، نہیں، ایسا ہرگز نہیں، جو کچھ ہوا، وہ ظلم تھا، اس معاملے پر بہت بہتر انداز میں قابو پایا جاسکتا تھا، لیکن بات یہ ہے کہ ریاست سے بھلا کب کس کو اچھے کی امید تھی یا ہے؟ امید تو پارٹی قیادت سے تھی کہ کم از کم وہ تو اپنے کارکن کو اکیلا نہیں چھوڑے گی، کم از کم پہلے وہ گرفتاری دے گی اور پھر کارکن تک ریاست کا ہاتھ جائے گا، مگر سب کچھ الٹا ہوا۔

ذرا تصور تو کریں کہ 26 نومبر کی رات اگر کارکنان سے پہلے علی امین گنڈاپور گرفتار ہوتے تو آج پارٹی مضبوط پوزیشن میں ہوتی یا کمزور؟ پارٹی کارکنان مزید پُرجوش ہوتے یا مایوس؟ عمران خان کی رہائی کی تحریک مزید زور پکڑتی یا نہیں؟

کیا ہوجاتا اگر علی امین گنڈاپور گرفتاری دے دیتے؟ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، انہوں نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا جس کی ضمانت نہ ہوسکتی تھی، مگر موقعے پر دلیری دکھانی تھی، جو نہ دکھائی جاسکی، شاید اسی لیے ساری ہمدردیاں کارکنان کے ہی ساتھ ہیں کہ جو قافلہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہے، بدقسمتی سے اسے دلیر قیادت نہ مل سکی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp