عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو فائنل احتجاج کی کال دی گئی جس پر خیبرپختونخوا سے قافلوں کی صورت میں بڑی تعداد میں کارکنان اسلام آباد پہنچے مگر پنجاب سے کوئی بڑا قافلہ اسلام آباد نہیں پہنچ سکا۔
26 نومبر کو پی ٹی آئی کے مظاہرین ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تاہم رات گئے آپریشن آپریشن کے دارالحکومت کے ریڈ زون میں واقع جناح ایونیو کو مظاہرین سے خالی کرالیا گیا، پی ٹی آئی کی قیادت اسلام آباد سے فرار ہوگئی، تاہم بعد میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے مانسہرہ سے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی فائنل کال پر پنجاب باہر کیوں نہ نکلا؟
پنجاب سے پی ٹی آئی کی قیادت سمیت کارکنوں کے اسلام آباد نہ پہنچنے پر پارٹی رہنماؤں اور پنجاب کی عوام پر بہت تنقید ہو رہی ہے کہ پنجابی اپنے حق اور اپنے رہنما کو رہا کروانے اسلام آباد کے ڈی چوک نہیں پہنچے۔
پی ٹی آئی کے ایک رکن پنجاب اسمبلی نے وی نیوز کو بتایا کہ اگر 24 نومبر سے قبل ہمیں اسلام آباد جانے کا کہا جاتا تو پنجاب کی عوام پہنچ جاتے، بشریٰ بی بی کا یہ حکم تھا کہ پنجاب کے اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنما 24 نومبر کو اپنے اپنے حلقوں سے نکلیں۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی کا پنجاب میں 24 نومبر کا احتجاجی پلان تبدیل، نیا منصوبہ کیا ہے؟
’اس سے ایک روز قبل 23 نومبر کو حکومت نے پورے پاکستان کے راستے بند کر دیے جس کی وجہ سے اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنما اسلام آباد نہ پہنچ سکے۔‘
مذکورہ رکن اسمبلی کے مطابق پنجاب کی قیادت پر بہت زیادہ تنقید کے بعد اب ہمیں لانگ مارچ کی تیاری کی ہدایت مل رہی ہیں، اور یہ لانگ مارچ اس دفعہ لاہور سے شروع ہوگا۔
مزید پڑھیں:ساری ہمدردیاں پی ٹی آئی کارکنان کے ساتھ!
’ہر قسم کی تیاری کا کہا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ لانگ مارچ کی کال کسی وقت بھی دی جاسکتی ہے، ڈی چوک پر ہمارے کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئی ہیں، سب کے سامنے انہیں مارا گیا جس کے باعث اب پارٹی کے اندر بہت غم و غصہ ہے۔‘
ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی کی جانب سے پیغام مل رہے ہیں، پنجاب کے اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنما بتائیں گے کہ کس تاریخ اور لاہور کے کس مقام سے لانگ مارچ شروع ہوگا۔
مزید پڑھیں:ڈی چوک احتجاج: علی امین گنڈاپور کی مخالفت، اجلاس میں تلخ جملوں کا تبادلہ
رکن اسمبلی نے بتایا کہ فیصل آباد ضلع میں پارٹی کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کیخلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے ہیں، اس طرح پنجاب کے باقی ماندہ اضلاع میں بھی کیا جارہا ہے۔
’ اگلے 10 سے 15 دن بڑے اہم ہیں، جس کے دوران پارٹی قیادت بڑے اہم فیصلوں کو حتمی شکل دے گی۔‘