یوں تو بلوچستان مسائل کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جہاں ہر شعبہ وقت کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ تنزلی کی جانب گامزن ہے، ایسے میں محکمہ صحت بھی ان محکموں میں شامل ہے جو سہولیات کا فقدان حکومتی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صوبے میں مجموعی طور پر 1634 صحت کے مراکز موجود ہیں جن میں 761 بنیادی صحت مراکز 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر 8 اسپتال جبکہ 7 کیئر اسپتال سمیت دیگر مراکز صحت شامل ہیں۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 78 مراکز صحت مکمل طور پر غیر فعال ہیں جبکہ طبی عملے کی 3 ہزار 530 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ان خالی آسامیوں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی 600 پوسٹوں میں سے 420 خالی پڑی ہیں جبکہ پورے صوبے میں صرف 180 ماہر ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز، ڈینٹل سرجن کی 2178، ٹیچنگ کیڈر 745، ہیلتھ مینجمنٹ کیڈڑ کی 187 اور اسپیشلسٹ کیڈر کی 420 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹروں کے اندورن صوبہ ڈیوٹی دینے کے بجائے کوئٹہ میں منتقل ہونے کا رجحان اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ کوئٹہ کے سول اسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں گریڈ 17 سے 20 کی منظور شدہ پوسٹوں سے 236 ڈاکٹرز اضافی تعینات ہیں، جن میں سول اسپتال میں 126 اور بی ایم سی میں 110 اضافی ڈاکٹرز تعینات ہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق قرارداد منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ
ماہرین صحت کا مؤقف ہے کہ محکمے میں طبی عملے کی کمی کی وجہ سے صحت کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے صوبے کے دور دراز علاقوں میں صورتحال یہ ہے کہ عمارتیں، بیڈ اور مشینری موجود ہے لیکن طبی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے کے سامان کو زنگ لگ رہا ہے ایسے میں لوگ علاج کی غرض سے کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے دو سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جس سے نہ تو طبی عملہ بہتر علاج کر پاتا ہے اور نہ ہی مریض شفایاب ہوتا ہے۔ ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے پرائیوٹ اسپتالوں کی چاندی ہو گئی ہے۔
اس معاملے پر صوبائی وزیر برائے صحت بخت کاکڑ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت میں گزشتہ کئی برس سے بڑی تعداد میں طبی عملے کی آسامیاں خالی ہیں جن میں ڈاکٹرز، نرسنگ اور پیرامیڈیکس شامل ہیں۔ گریڈ 16 کے بعد تعیناتی کا عمل پبلک سروس کمیشن کے پاس ہے اس سے نچلے درجے کے گریڈ میں بھرتیوں کے لیے جب بھی کوشش کی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی عدالت سے اسٹے لے آتا ہے جس کی وجہ نہ خالی آسامیاں پر نہیں ہو پاتیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کرنے جارہے ہیں، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
ان کا کہنا تھا کہ میرے وزیر صحت بنے سے قبل وزیر اعلی بلوچستان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان خالی آسامیوں کو پر کیا جائے گا جس کے لیے ضلعی اور ڈویژنل سطح پر کمیٹیاں بنائی گئیں جو ان خالی آسامیوں کو پر کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ جہاں تک تعلق رہا گریڈ 17 کے ڈاکٹرز کا تو اس کے لیے یہ طریقہ کار طہ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹرز کی کانٹریٹ کی بنیاد پر بھارتی کرکے بعد ازاں پبلک سروس کمیشن کے زریعے ان کا امتحان لے کر انہیں بھارتی کردیا جائے گا۔
بخت کاکڑ نے کہا کہ صحت کے شعبے سے متعلق سہولیات تب تک فراہم نہیں کی جا سکتیں جب تک طبی عملہ اسپتالوں میں موجود نہ ہو۔ محکمہ صحت کی بہتری کے لیے ہم ایک روڈ میپ بنانے جارہے ہیں جس سے 3 ماہ کے اندر ایسی ریفارم لائیں گی جس سے محکمے کی قسمت بدل جائے گی۔ ہسپتالوں میں ادویات سمیت تمام سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایسا نظام بنائیں گے کہ مستقبل میں ہم ہوں نہ ہوں سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔