اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی نجکاری کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس قومی اثاثے کو یا تو کوئی خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتا یا پھر انتہائی کم قیمت لگائی جارہی ہے۔
یوں تو قومی ایئرلائن کی نجکاری سے متعلق کارروائی ڈیڈلاک کا شکار ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود پس پردہ اب بھی کوششیں جاری ہیں کہ اس ادارے کو خریدا جائے اس سلسلے میں کوئی اونے پونے دام لگارہا ہے تو وہیں بعض کنسورشیئم بنا کر اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانیوں کے لیے خوشخبری: پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازوں پر عائد پابندی ختم
پاکستان سول ایوی ایشن کے سابقہ عہدیدار مشتاق جمعہ نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی خریداری کے لیے اصل میں 8 گروپس نے سنجیدگی کا اظہار کیا تھا اور ہر گروپ میں 3 یا 4 کمپنیاں تھیں تو اس حساب سے یہ مجموعی طور پر 24 کمپنیاں بنتی ہیں۔
مشتاق جمعہ کے مطابق ان 8 گروپس میں سے 2 ڈس کوالیفائیڈ جبکہ بقیہ 6 شارٹ لسٹ کرلیے گئے تھے، جنہوں نے سوچا کہ کوالیفائی تو ہم نے کرلیا ہے اب ہم نے اسکی قیمت لگانی ہے اور اس کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ کمپنی کا فائدہ کیا ہے نقصان کتنا ہے اور اثاثے کتنے ہیں اور تب جا کر قیمت کا تعین ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ کابینہ کمیٹی کو بھجوانے کا فیصلہ
مشتاق جمعہ کا کہنا تھا کہ 5 ہزار ڈالر کا ٹینڈر ڈاکومنٹ دیا جاتا ہے اس دستاویز میں درج شرائط میں خلاف قانون تبدیلیاں کی گئیں اور نجکاری کمیشن کے ذرائع کے مطابق شرائط ایسی رکھی گئیں کہ باقی 5 گروپس پیچھے ہٹ گئے اور صرف ایک گروپ نے بولی لگائی جو انتہائی کم تھی۔
پی آئی اے کی بولی 10 ارب روپے کیوں لگی؟
مشتاق جمعہ کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی ریزرو پرائز 85 ارب روپے لگائی گئی تھی قانوناً یہ قیمت تب ظاہر ہوتی ہے جب نیلامی یا آکشن ہو رہا ہو، جس طرح نیلامی ایک قیمت سے شروع کی جاتی ہے تو اس طرح یہاں بھی 85 ارب روپے سے زائد کی بولی لگائی جاتی۔
مزید پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری: بلیو ورلڈ سٹی کی 10ارب روپے کی بولی مسترد
’یہ پیپرا کا قانون ہے کہ آپ نے کچھ نہیں بتانا آپ نے خریدار کو تمام اثاثے بتانے ہیں اور پھر وہ ریٹ خود سے لگائیں گے لیکن یہاں جب صرف ایک گروپ کو میدان خالی ملا تو اس نے 10 ارب روپے کی قیمت لگائی اور اس میں بھی ترتیب یہ تھی کہ 2 ارب روپے پہلے دے دیے جائیں گے باقی ہم مہلت لے لیں گے۔‘
پی آئی اے کون خرید رہا ہے؟
اس ضمن میں تاجر محمد حنیف گوہر نے وی نیوز کو بتایا کہ بہت جلد خوشخبری ملنے والی ہے کہ پی آئی اے پاکستان میں سے ہی کچھ لوگ اچھی قیمت پر خریدیں گے اور چلا کر بھی دکھائیں گے۔
مزید پڑھیں:پی آئی اے کا 10 سال سے آڈٹ نہ ہوا، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں اور کیا انکشافات سامنے آئے؟
ان کا کہنا تھا مقتدر حلقے چاہتے ہیں کہ قومی اثاثہ ملک میں ہی کسی کے پاس رہے تا کہ جو فائدہ پہنچے وہ ملک کو پہنچے باہر نہ جائے۔
پاکستان سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کو ٹیکنیکل معاونت فراہم کرنے والے انجینیئر مشتاق جمعہ اس وقت پی آئی اے کے سابقہ ملازمین اور کراچی کے بڑے تاجروں سے رابطے میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی خریداری کے حوالے سے وہ بہت جلد خوشخبری سنائیں گے۔
مشتاق جمعہ پر امید ہیں کہ پی آئی اے کے ہی سابقہ ملازمین اور پاکستانی تاجر مل کر اس قومی اثاثے کو خرید لیں گے۔ ’پی آئی اے کی نیلامی کا عمل کم بولی لگانے کے باعث ناکام ہوگیا ہے پس پردہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہولیکن اس ناکامی میں ہمارے لیے خیر کا پہلو شامل ہے۔














