گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی دعوت پر گورنر ہاؤس پشاور میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا 14 نکاتی اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق، صوبائی سیاسی قیادت صوبے میں امن و امان کی خوفناک حد تک بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتی ہے، گزشتہ سال کی نسبت صوبہ رواں برس زیادہ خونریزی کا شکار رہا، گزشتہ ماہ 70 سے زیادہ سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت ہوئی جبکہ کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں 200 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر ہاؤس پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس کا آغاز، پی ٹی آئی کی عدم شرکت
اے پی سی کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت امن و امان کی صورتحال میں ناکام دکھائی دے رہی ہے، اجلاس میں صوبے کی مالی اور سیاسی صورتحال اور صوبے کے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی پر سیاسی کمیٹی اور ٹیکنیکل کمیٹی کی قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ساتواں این ایف سی ایوارڈ تقریباً گزشتہ 2 سے ڈھائی سال سے غیرمؤثر ہے لہٰذا فوری طور پر گیارہواں این ایف سی ایوارڈ جاری کیا جائے، این ایف سی ایوارڈ میں سابقہ فاٹا کے لیے مختص 3 فیصد رقم گزشتہ 5 سال میں ریلیز نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: اے پی سی بلانا وزیراعلیٰ کی ذمہ داری تھی مگر انکے ایجنڈے میں امن و امان شامل نہیں، امیر مقام
اے پی ای اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ فاٹا کے لیے مختص واجب الادا 3 فیصد رقم سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے مطابق جاری کی جائے اور سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر من و عن عمل کیا جائے، نئے این ایف سی ایوارڈ صوبہ کی مردم شماری کے مطابق کی جائے اور فارمولا میں فارسٹ اور ماحولیات کو بھی شامل کیا جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ فورم متفقہ طور پر اس تاریخی حقیقت کا اعادہ کرتا ہے کہ صوبے میں پائی جانے والی مائینز اینڈ منرلز صوبوں کی عوام کی ملکیت اور آنے والی نسلوں کی امانت ہیں اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں دی گئی لیز کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں۔اے پی سی نے پاک افغان سرحد کے تمام تاریخی تجارتی راستوں کو ہر قسم کی تجارت کے لیے فوری طور پر کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور نے گورنر فیصل کریم کنڈی سے چانسلر کے اختیارات چھین لیے
اعلامیہ میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت آئین کے ارٹیکل 158 کے مطابق صوبے کی عوام کو ترجیحی بنیادوں پر گیس کی فراہمی یقینی بنائے اور آئین کے ارٹیکل 161 کے مطابق این ایچ پی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی آن آئل صوبے کو ادا کرے، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آئینی مدت کے مطابق باقاعدگی سے بلایا جائے۔
اے پی سی نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت پی ایف سی کی تشکیل کرکے باقاعدگی کے ساتھ ایوارڈ کا اجرا کرے، مؤثر بلدیاتی نظام اور بلدیاتی نمائندوں کو لوکل گورنمنٹ کے مطابق بلا تفریق فنڈ جاری کیے جائیں، صوبائی حکومت سے آئی ڈی سی جو 2 فیصد لاگو کیا گیا ہے وہ افغان تجارت کو متاثر کررہا ہے اس کو واپس لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں گورنر راج کی گونج، پی ٹی آئی کو اس فیصلے سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟
اعلامیہ میں کہا گیا کہ آبی وسائل میں صوبے کا جو حصہ 1991 ڈبلیو اے اے میں پیرا 2، 4 اور 10 کے مطابق بنتا ہے، اس کے لیے وفاقی حکومت باقی صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا کو بھی انفراسٹرکچر فراہم کرے، تمام قبائلی اضلاع میں آپریشنوں سے ہونے والے تمام آئی ڈی پیز کو باعزت اور وعدوں کے مطابق واپس اپنے علاقوں کو بھیج دیا جائے، خیبرپختونخوا کے پرامن پشتونوں کو دوسرے صوبوں اورمرکز اسلام آباد میں بیجا تنگ نہ کیا جائے اور صوبائی حکومت کی کارگردگی کا آڈٹ کیا جائے۔