جسٹس منصورعلی شاہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پرتحفظات، جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ دیا

جمعرات 5 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے طربقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کو بھی خط لکھ دیا ہے، جس میں ججز کی تعیناتی سے قبل میرٹ اور شفافیت کے لیے واضح رولزبنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جوڈیشل کمیشن کا 6 دسمبر کا اجلاس مؤخر کیا جائے، جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط

جمعرات کو سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کے نام لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ مجھے چاروں صوبوں سندھ، پشاور، بلوچستان اور لاہورکی ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججز کی تقرری کے لیے متعلقہ چیف جسٹسز اور کمیشن کے دیگر ممبران کی جانب سے تقرریوں کے لیے ہدایات موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ کمیشن کے ایک رکن کی حیثیت سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کمیشن نے ابھی تک آئین کے آرٹیکل 175 اے (4) کے تحت ججوں کی تقرری کے معیار کو پرکھنے کے  لیے طریقہ کاریا جائزہ لینے کے لیے اپنے قواعد تیارنہیں کیے ہیں۔

WhatsApp Image 2024-12-05 at 8.27.13 PM by Iqbal Anjum on Scribd

انہوں نے لکھا کہ آسامیوں پر ججزکی تقرری کے لیے کمیشن کی جانب سے وضع کردہ کسی بھی حد سے زیادہ پالیسی، معیار اور طریقہ کار کی عدم موجودگی میں کمیشن متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت کسی بھی رکن کی نامزدگیوں پرغورنہیں کرسکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’واضح رہے کہ جنرل کلازایکٹ 1897 کا اطلاق آئین پرنہیں ہوتا۔ نتیجتاً مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 24، جوعام قوانین کے تحت بنائے گئے سابقہ قواعد کو جاری رکھنے کا اہتمام کرتی ہے، سابقہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز2010 پرلاگو نہیں ہوتی اوراس لیے نامزدگیاں شروع کرنے کے لیے ان پر کوئی انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ

حتیٰ کہ دوسری صورت میں مذکورہ قواعد ججوں کی تقرری کے معیار کو پرکھنے کے لیے طریقہ کارفراہم نہیں کرتے ہیں جو اب کمیشن کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل 175 اے (4) کے تحت بنائے گئے قواعد میں فراہم کرنا لازمی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ کمیشن ملک کی آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا کمیشن پرلازم ہے کہ وہ ایک جامع پالیسی اورواضح معیارقائم کرے جوججز کی نامزدگی اوران کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے عمل کی رہنمائی کرے اوراس کی ریگولیشن کرے۔

انہوں نے لکھا کہ اس طرح کے فریم ورک کے بغیراس عمل میں شفافیت، مستقل مزاجی اورمیرٹ کی پامالی کا خطرہ ہے۔ ایک جامع پالیسی کے تحت سب سے پہلے ممکنہ تقرریوں کی وضاحت کرنی چاہیے، یعنی ضلعی عدلیہ کے ارکان، قانون کے مخصوص شعبوں میں کام کرنے والے وکلا کی مہارت، علاقائی، مذہبی اور صنفی حیثیت کے لحاظ سے چانچنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ’کچھ مقدمات ہمارے پاس بھی رہنے دیں‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ایسا کیوں کہا؟

خط میں لکھا گیا ہے کہ نامزد افراد کے بارے میں ضروری تفصیلات فراہم کرنا ضروری ہے، نامزدگی سے پہلے اس کا دستاویزی ہونا ضروری ہے۔ ان میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ کام کا تجربہ، رپورٹ کردہ فیصلے، ٹیکس ادا کرنے اوردیگرمتعلقہ پس منظرشامل ہیں جو ان کی دیانتداری، اہلیت اور قانون کی حکمرانی سے وابستگی کی عکاسی کرتے ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ اس طرح کے منظم نقطہ نظر اور طربقہ کار کی عدم موجودگی کمیشن کے ججوں کی تقرری میں اپنا اہم کردارادا کرنے کی صلاحیت کو کمزورکرتی ہے کیونکہ ججز کے فیصلے ملک کے ہر کوفرد کو متاثرکرتے ہیں اورعدلیہ پرعوام کے اعتماد کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ واضح پالیسیاں اور قائم کرنا صرف ایک طریقہ کار کے لیے ہی ضروری نہیں ہیں بلکہ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی بنیاد ہیں کہ عدلیہ آزاد، قابل اوراس معاشرے کی نمائندہ بنی رہے جسے وہ انصاف فراہم کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کا منصوبہ کیا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سابقہ کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وہ ججز کی تقرری سے متعلق سابق کمیٹی کے شریک صدر تھے تو اس وقت کمیٹی نے متعدد اجلاسوں اور وسیع غور و خوض کے بعد طریقہ کار کے کچھ قواعد تجویز کیے تھے۔

انہوں نے لکھا کہ مذکورہ کمیٹی کے تمام ممبران نے متفقہ طور پراتفاق کیا کہ بطور جج کسی کی  تقرری کے لیے کسی شخص کی فٹنس کا تعین کرنے کے لیے مندرجہ ذیل معیار پرغور کیا جانا چاہیے۔

ان قوائد کے مطابق جج کی تقرری کے لیے پیشہ ورانہ قابلیت اور تجربہ، لوگوں سے گفتگو کی مہارت، کام کے بوجھ سے نمٹنے کی صلاحیت اور کارکردگی، دیانتداری، آزادی، معروضیت اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنے کا مزاج ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں نئے چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصور اور جسٹس منیب کو شامل کر لیا

انہوں نے لکھا کہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کے لیے نامزدگیاں شروع کرنے میں، وکلا اور ضلعی عدلیہ کے ممبران دونوں کی منصفانہ نمائندگی ہونی چاہیے، ساتھ ہی صنف، علاقے، مذہب اور قانون کے مخصوص شعبوں میں مہارت کے لحاظ سے بھی مناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔

خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ مندرجہ بالا قوائد اور تجاویز کی روشنی میں میں چیئرپرسن اور کے ممبران سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے وہ کام کریں جو پہلے قواعد وضع کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے جومندرجہ بالا شرائط میں ایک جامع فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کے قواعد وضع ہونے کے بعد ہی کمیشن ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججوں کی تقرری کے لیے نامزدگیاں طلب کرسکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp