مدارس رجسٹریشن ایشو کیا ہے، اس پر اتنی سیاست کیوں ہورہی؟

پیر 9 دسمبر 2024
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مولانا فضل الرحمان اکتوبر کے وسط میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنے تھے، اب ایک بار پھر وہ مرکز نگاہ بن رہے ہیں، مگر اس بار ان کا جارحانہ رویہ مدارس بل بنا۔

مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دینی مدارس بل پر دستخط نہیں ہوئے تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے، انہوں نے جلسے میں موجود شرکا سے یہ وعدہ بھی لیا کہ جب انہیں کال دی جائے گی تو وہ چلنے کے لیے تیار ہوں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم مدارس میں سرکار کی مداخلت نہیں مانتے، مدارس آزاد حیثیت میں کام کریں گے، ہم یہ جنگ جیتیں گے وغیرہ وغیرہ۔

مولانا کے مؤقف پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ آخر اسلام آباد پر کتنی مزید لشکر کشی ہوگی؟ ہر سیاسی جماعت اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کرتی ہے، حکومت اسے روکنے کے لیے کنٹینر وغیرہ لگاتی ہے اور یوں اصل نشانہ اسلام آباد کے بدنصیب عوام بنتے ہیں۔

تحریک انصاف بار بار ایسا کرتی رہی ہے، اس سے پہلے عمران خان دور میں مولانا فضل الرحمان نے ایک آزادی مارچ کیا تھا اور 10 دن دھرنا دینے کے بعد ناکام لوٹ گئے تھے، پھر بلاول بھٹو نے بھی ایک مارچ کیا تھا۔ یہ سلسلہ آخر کہیں تو رکنا چاہیے۔

مدارس رجسٹریشن ایشو ہے کیا؟

ہمارے ہاں دینی مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں جو وزارتِ صنعت کے ماتحت آتی ہیں، یعنی ہزاروں دینی مدارس کا پورا نظام وزارتِ صنعت وتجارت کے تحت آتا ہے۔ ظاہر ہے یہ خاصی مضحکہ خیز بات ہے۔ دینی مدارس بنیادی طور پر دین کی تعلیم دینے والے ادارے ہیں، ان کے لیے وزارتِ تعلیم یا وزاتِ مذہبی امور کے تحت انتظام ہونا چاہیے، وزارتِ صنعت کی کیا تک ہے؟ دراصل سوسائٹی ایکٹ کے تحت رفاہی، خیراتی ادارے رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ مدارس کا مؤقف ہے کہ ہم بھی چونکہ ویلفیئر کا کام کرتے ہیں اس لیے ہمیں بھی سوسائٹی ایکٹ کے تحت آنا چاہیے۔

دینی مدارس کے بورڈ کون سے ہیں؟

دینی مدارس کی 5 بڑی تنظیمیں رہی ہیں، ان میں سے ایک وفاق المدارس العربیہ پاکستان یا عام زبان میں وفاق المدارس کہلاتا ہے اور دیو بندی مدارس اس سے منسلک ہیں۔ مولانا حنیف جالندھری اس کے روح رواں اور ناظم اعلیٰ ہیں، آج کل مفتی تقی عثمانی صاحب اس کے صدر ہیں اور مولانا فضل الرحمان ہمیشہ وفاق المدارس کو بھرپور انداز میں اپنی سپورٹ فراہم کرتے ہیں اور وفاق کے مدارس اور ان کے طلبہ مولانا کے دست و بازو بنتے ہیں۔

دوسری بڑی اور اہم تنظیم تنظیم المدارس اہل سنت ہے جس سے بریلوی مدارس منسلک ہیں اور مفتی منیب الرحمان صاحب اس کے صدر ہیں۔ تیسری تنظیم اہلِ حدیث یا سلفی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس السلفیہ کے نام سے ہے اور پروفیسر ساجد میر اس کے صدر ہیں۔ جبکہ چوتھی ان مدارس کی ہے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، ان کی تنظیم رابطتہ المدارس الاسلامیہ ہے اور مولانا عبدالمالک اس کے صدر ہیں۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے ساتھ شیعہ مدارس منسلک ہیں۔

ان پانچوں تنظیموں کو مدارس کے بورڈ کہہ لیں، یہ اپنے ساتھ منسلک بے شمار مدارس کے طلبہ کے امتحان لیتے ہیں۔ یہ پانچوں تنظیمیں ’اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے اکٹھی ہوکر اپنے مسائل وغیرہ پیش کرتی ہیں۔

مدارس رجسٹریشن بل 2019 کیا ہے؟

2019 میں جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب حکومت نے اتحاد تنظیمات مدارس سے مذاکرات کے بعد 29 اگست 2019 کو ایک معاہدہ کیا جس کے تحت مدارس کو اب سے وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ یہ وزارت ہی ملک بھر سے مدارس، جامعات کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی۔(مدارس کی شکایت تھی کہ انہیں مختلف محکموں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے، اس لیے انہوں نے مطالبہ کیا کہ صرف ایک وزارت ہی اسے ڈیل کرے۔)

 معاہدے کے تحت وہ مدارس اور جامعات جو وفاقی وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوں گے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔ اسی وزارت کے تحت تمام رجسٹرڈ مدارس کو شیڈول بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم معاونت کرے گی۔ (یاد رہے کہ اس سے پہلے دینی مدارس کو بینک اکاؤنٹس کھولنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔)

ایک اور اہم مسئلہ جس کا سامنا دینی مدارس کو تھا، وہ غیر ملکی طلبہ سے متعلق تھا۔ اس معاہدے میں کہا گیا کہ ان رجسٹرڈ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کے لیے تعلیمی ویزا دے گی۔ ایک شق مدارس میں عصری تعلیم (میٹرک، ایف اے وغیرہ) کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بھی تھی۔

اس مدارس رجسٹریشن بل پر پانچوں تنظیموں کے ذمہ داران یعنی مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا حنیف جالندھری، پروفیسر ساجد میر، مفتی منیب الرحمان، مولانا عبدالمالک وغیرہ نے دستخط کیے۔ یہ معاہدہ 5 سال پرانا ہے۔

حالیہ تنازعہ کیا ہے؟

ہوا کچھ یوں کہ مولانا فضل الرحمان نے 26ویں آئینی ترمیم پر حکومتی معاونت کی اور اسے منظور کرانے میں مدد کی تو انہوں نے اپنی روایتی مدارس اور دینی طلبہ کی آڈینس کو مطمیئن کرنے کے لیے ترمیم کے ساتھ ہی دینی مدارس رجسٹریشن کا ایک بل (ایکٹ) بھی منظور کروایا۔ اس کی مکمل تفصیل تو سامنے نہیں آئی، ناجانے مولانا اور ان کے حامیوں نے اس قدر خفیہ کیوں رکھا ہوا ہے، بہرحال اس میں ایک بڑی بنیادی قسم کی شق یہ ہے کہ دینی مدارس اب وزارتِ تعلیم کے بجائے پھر سے وزارتِ صنعت وپیدوار کے تحت رجسٹرڈ ہوں گے۔

یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے تو ترمیم کے ساتھ اسی دن منظور ہوگیا، تاہم جب صدر کے پاس بھیجا گیا تو انہوں نے اسے روک لیا۔ کہا جارہا ہے کہ صدر کو قانونی ماہرین نے اس بل میں موجود قانونی کمزوریوں اور مشکلات کی نشاندہی کی۔ صدر نے بل پر دستخط نہیں کیے اور اب مولانا فضل الرحمان اس معاملے کو لے کر احتجاج کررہے ہیں۔

مولانا والے بل پر اعتراضات

مولانا فضل الرحمان نے 2 دن قبل اپنے بیان میں فرمایا کہ وہ اس بل پر اعتراضات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے اور وہ اسے چمٹے سے پکڑ کر اٹھانے کو بھی تیار نہیں۔ مولانا کا یہ شاہانہ انداز اپنی جگہ، مگر اس سے اعتراض بے وزن تو نہیں ہوجاتے۔ دلیل کا جواب دلیل ہی سے دینا پڑے گا۔

پہلا اعتراض وہی ہے کہ مدارس دینی تعلیم دیتے ہیں، انہیں وزارتِ تعلیم کے ماتحت ہی ہونا چاہیے۔ وزارتِ صنعت کے تحت جانے کی کیا منطق ہے؟ مولانا کے ایک مخالف نے اس پر پھبتی کسی کہ بے شک مولانا کے لیے یہ مدارس انڈسٹری کی حیثیت رکھتے ہوں گے کہ انہیں یہاں سے فوائد ملتے ہیں، مگر بہرحال یہاں تعلیم دی جاتی ہے اور یہ انڈسٹری نہیں۔

دوسرا اعتراض جسے کرنے والوں میں مولانا فضل الرحمان کے بعض حامی اورخیر خواہ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن ایک پیچیدہ، گنجلک اور مشکل معاملہ ہے۔ پہلے بھی مدارس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ اس سوسائٹی ایکٹ کا ایک خاص طریقہ کار اور شرائط، پابندیاں ہیں جن کی زد میں مدارس بھی آتے تھے اور پھر شکایات ہوتیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا اسے اپنی سیاسی کامیابی تصور کررہے ہیں، مگر درحقیقت وہ مدارس کی مشکلات بڑھا رہے ہیں۔

تیسرا اعتراض جو زیادہ وزنی اور اہم ہے، وہ یہ کہ وزارتِ تعلیم کے تحت مدارس کے کئی نئے بورڈ بھی رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، خاص کر مجمع العلوم السلامیہ پاکستان جو جامعتہ الرشید کا ہے، ساڑھے 18 ہزار مدارس اور 22 لاکھ طلبہ اس سے منسلک ہیں۔ ان سب کی رجسٹریشن وزارتِ تعلیم سے ہوچکی ہے، انہوں نے بہت اچھے سے اپنا پورا نظام بنا لیا ہے اور یہ وزارتِ تعلیم سے مکمل طور پرمطمیئن اور خوش ہیں۔ یہ کسی بھی صورت دوبارہ سے وزارتِ صنعت کے تحت جانے کو تیار نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر وفاق المدارس والے کہیں اور جانا چاہتے ہیں تو بے شک جائیں، مگر ہم وزارتِ تعلیم کے تحت ہی رہیں گے۔

خدشہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کے تجویز کردہ مدارس رجسٹریشن بل پر صدر دستخط کردیں اور یہ قانون بن جائے تو ایک نیا ہنگامہ، نیا مسئلہ شروع ہوجائے گا اور مدارس کے نئے بورڈ سراپا احتجاج ہوں گے۔

مدارس کے نئے بورڈ کون سے ہیں؟

4 فروری 2021 اور پھر اپریل 2021 میں 10 کے لگ بھگ دینی مدارس کے نئے وفاقی بورڈ رجسٹرڈ ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر آیا ان میں جامعتہ الرشید کا بورڈ مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان نمایاں ہیں اور ممتاز دینی اسکالر مفتی عبدالرحیم صاحب اس کے صدر ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک منہاج القرآن کا دینی تعلیمی بورڈ ’نظام المدارس پاکستان‘ کے نام سے، دعوت المدارس کا ’کنزالمدارس‘ اور جامعہ رضویہ فیصل آباد کا ’وفاق المدارس الرضویہ‘ کے نام سے ہے۔

چند ایک دیگر دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث دینی مدارس کے بورڈ بھی قائم ہوئے۔ یہ سب نئے وفاقی دینی تعلیمی بورڈ خوش دلی سے وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، پچھلے 3 برسوں سے ان کے معاملات اچھے چل رہے ہیں اور انہیں کوئی شکوہ نہیں۔

بقول مفتی عبدالرحیم صاحب ان مدارس کے بینک اکاونٹ کھل رہے ہیں، ان کے تحت ہزاروں غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کے لیے تعلیمی ویزے بھی دیے گئے ہیں اور وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کا معاملہ اس قدر آسان ہے کہ بمشکل ایک ہفتے میں یہ ہوجاتا ہے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت اپنے اس پورے جمے جمائے کام کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور وہ ہرگز وزارتِ تعلیم کو چھوڑ کر وزارتِ صنعت وغیرہ میں جانے کو تیار نہیں۔ وفاق المدارس البتہ جانا چاہتا ہے تو ضرور جائے، مگر ان سب کو نہ چھیڑا جائے۔

مولانا کا احتجاج کیوں؟

ہم نے کوشش کی ہے کہ اپنی رائے دینے سے زیادہ قارئین کو یہ معاملہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ اصل مسئلہ ہے کیا اور مولانا فضل الرحمان احتجاج کیوں کررہے ہیں؟

بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ مولانا اور وفاق المدارس کا احتجاج اور اس حوالے سے مؤقف کمزور ہے۔ انہوں نے 5 سال پہلے خود معاہدہ کیا، جس پر دستخط بھی کیے، اب اچانک یوٹرن کیوں؟ اگر یہ شکایت ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی وزارتِ تعلیم نے بینک اکاونٹس وغیرہ کھولنے کے لیے معاونت نہیں کی تو یہ اعتراض اٹھائیں۔ کوئی اور معاملہ ہے تو اس کی نشاندہی کریں۔ وزارتِ تعلیم کو چھوڑ کر پھر سے وزارتِ صنعت کی طرف دوڑ لگانے کا کوئی جواز نہیں۔

مدارس کو کام کی آزادی ملنی چاہیے، مگر یاد رکھیں کوئی بھی آزادی غیر مشروط نہیں ہوتی۔ یہ سب پاکستانی ادارے ہیں، پاکستانی قوانین کے پابند، ان پر کیسے قوانین کا اطلاق نہ ہو؟ اور جب مجمع الاسلامیہ کے 18 ہزار مدارس وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ ہوکر مطمیئن اور آسودہ ہیں تو پھر وفاق المدارس کو کیا اعتراض ہے؟

مولانا فضل الرحمان کو چاہیے کہ پہلے سے غیر مستحکم اور چیلنجز سے دوچار ملک کو کسی نئے بحران کی طرف نہ لے جائیں۔ اگر اسمبلی سے منظور شدہ بل میں نقائص ہیں اور کچھ باتیں آئین سے متصادم ہیں تو انہیں دُور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہر وقت اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کی بات کرنا بھی مناسب نہیں۔ اپنے مطالبات افہام وتفہیم سے حل کرائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp