قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ لاپتا افراد کو ہرصورت برآمد کروایا جائے۔
پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین خرم شہزاد نواز کی زیرصدارت ہوا، اجلاس میں 1 سال 4 ماہ سے لاپتا بچے کے کیس پر کمیٹی میں بحث ہوئی، اجلاس میں ڈی جی ایف آئی شریک نہیں ہوئے جس پر اراکین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا۔
چیئرمین کمیٹی خرم شہزاد نواز نے کہا کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹرز لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں، ایف آئی اے والوں کو کوئی مسٹر، کوئی سیکریٹری پوچھنے والا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کمیشن، گزشتہ 6 سالوں کی نسبت اس سال سب سے کم شکایات موصول
رکن اسمبلی چوہدری نصیر نے کہا کہ ایف آئی اے سب انسپکٹرز بندے اٹھاتے ہیں، ان کی جانب سے ریٹ 15 لاکھ سے شروع کیا جاتا ہے۔
رکن کمیٹی حنیف عباسی نے کہا کہ ہم نے ڈی جی ایف آئی اے کو بتایا کہ شہریوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، ڈی جی ایف آئی اے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
رکن اسمبلی نبیل گپول نے بھی ایف آئی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کرنا ہوتا ہے تو ایف آئی اے کو بلایا ہی نہ کریں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ افسران کا ذاتی کیس ہو تو ضمانت والوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے، جو بچہ اغوا ہوا اس کے ماں باپ پر کیا گزر رہی ہوگی، یہ مسئلہ حل کرکے اسی ہفتے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے، لاپتا افراد کو ہرصورت برآمد کروایا جائے۔
ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کی قانون کے مطابق کارروائی کی یقین دہانی
اس موقع پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے مؤقف اپنایا کہ رولز کے تحت ہم گریڈ 16 تک ایکشن لینے سے قاصر ہیں، گریڈ 16 تک صرف ڈی جی نوٹس لے سکتا ہے، ڈاریکٹر کے پاس گریڈ 16 کے افسران کے خلاف ڈسپلنری ایکشن کا اختیار نہیں۔
ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ کو پہلے ہی اپیل کی ہے کہ رولز میں ترمیم کی جائے۔
کمیٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے کہا کہ کمیٹی کی خبر ملی خوش ہوا کہ محسن نقوی کا دیدار ہوگا، وزارت داخلہ کے تنگ کمرے میں بیٹھنے کے باوجود منسٹر صاحب نہیں آئے۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتا بچوں کا معاملہ، سپریم کورٹ آئینی بینچ نے تمام آئی جیز اور سیکریٹریز داخلہ کو طلب کرلیا
رکن قومی اسمبلی ارشد ساہی نے کہا کہ میرے پیٹرول پمپ کے خلاف درخواست آئی جو ایف آئی اے تک پہنچ گئی، ایف آئی اے کی جانب سے میرا جینا حرام کردیا گیا ہے۔
ڈاکٹر نثار جٹ نے ایف آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے تفتیشی کو پیسے دو اور کام لے لو بات ختم ہوجائے گی۔
کوسٹ گارڈ ترمیمی بل اتفاق رائے سے منظور
اس موقع پر اجلاس میں کوسٹ گارڈ ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا،جو کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا، جبکہ کمیٹی نے بلز منظوری کے طریقہ کار کے بل نیچرلائزیشن ایکٹ ترمیمی بل کو مؤخر کردیا، کمیٹی نے کرمنل لاء ترمیمی بل بھی آئندہ اجلاس تک مؤخر کردیا۔
گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق نوٹیفکیشن معطل کرنے پر غور
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق ڈی سی اسلام آباد کا نوٹیفکیشن معطل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن نے غیر قانونی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2 اگست کو گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، ہزار سے 3 ہزار سی سی گاڑیوں پر رجسٹریشن کی تاخیر پر جرمانہ عائد کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کے شہری اب گھر بیٹھے گاڑی کی رجسٹریشن کروا سکیں گے
ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہا کہ حکومت نے تاخیر سے رجسٹریشن پر 26 کروڑ روپے جرمانے کی مد میں اکھٹے کیے ہیں، پہلے یہ ہوتا تھا کہ رجسٹریشن پورے ملک کی گاڑیوں کی اسلام آباد میں ہوتی تھی اور منافع اکھٹا ہوتا تھا۔
پرانی گاڑیوں کی رجسٹریشن جرمانے کے بغیر ہو مگر نئی گاڑیوں پر جرمانہ عائد ہو
کمیٹی اجلاس میں گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق آل پاکستان کارز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کی پبلک ہئیرنگ کی گئی۔
نمائندہ کارز ایسوسی ایشن نے مؤقف اپنایا کہ جو گاڑیاں پرانی ہیں ان کی رجسٹریشن جرمانے کے بغیر ہو مگر نئی گاڑیوں پر جرمانہ بے شک عائد ہو، آج شو رومز والے اپنی کھڑی ہوئی گاڑیوں کا نمبر دے دیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا، چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈی سی صاحب ہمیں حل نکالنا ہے۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن پر عائد جرمانے کی شرط کو ایک دفع ختم کیا جائے۔
ڈی سی اسلام آباد موٹروے پر فائن کو 2ہزار 500 روپے کیا گیا تو وہاں رولز کی خلاف ورزی کم ہوئی ہے۔ نمائندہ آل پاکستان کارز ایسوسی ایشن نے مؤقف اپنایا کہ اگر خلاف ورزی نہیں ہو گی تو پھر منافع اکھٹا بھی نہیں ہو گا۔
داخلہ کمیٹی ڈی سی اسلام آباد اور کارز ایسوسی ایشن کی ترجمان نہیں، زرتاج گل
رکن کمیٹی زرتاج گل نے کہا کہ داخلہ کمیٹی ڈی سی اسلام آباد اور کارز ایسوسی ایشن کی ترجمان نہیں ہے، آئندہ کمیٹی پر پبلک نمائندے جو گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق ماہر ہیں کو بلا کر حل نکالا جائے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سمیت کمیٹی کے دیگر ممبران نے زرتاج گل کی تجویز کی حمایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑی کا من پسند رجسٹریشن نمبر پنجاب میں کتنا مہنگا ؟
نمائندہ آل پاکستان کارز ایسوسی ایشن نے بتایا کہ اسلام آباد میں 16 فیصد اور پورے ملک میں 4 فیصد گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں۔
چئیرمین کمیٹی خرم شہزاد نواز نے سوال اٹھایا کہ ڈی سی صاحب یہ نوٹیفکیشن کمیٹی معطل کرسکتی ہے؟ نمائدہ وزارت قانون جام اسلم نے مؤقف پیش کیا کہ ڈی سی کا نوٹیفکیشن داخلہ کمیٹی معطل نہیں کرسکتی، اگر گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نوٹیفکیشن معطل ہوا تو جو 26 کروڑ اکھٹے کیے وہ لوگ عدالتوں میں چلے جائیں گے۔
کمیٹی نے آئندہ اجلاس تک گاڑیوں کی رجسٹریشن سے متعلق تنازع پر ڈی سی اسلام آباد اور کارز ایسوسی ایشن کو بیٹھ کر حل نکالنے کی ہدایت کر دی۔