مشرقی پاکستان کا گورنر راج اور آج کے اندیشے

جمعرات 12 دسمبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے پر غور کرنے کی خبریں پڑھ کر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اس کی نوبت نہ ہی آئے تو اچھا ہے کیوں کہ جمہوری نظام کے لیے ایسے اقدامات کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوتے۔

ہماری تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بہت سے ایسے فیصلے بھی دہرائے جاتے ہیں جو ماضی میں ہولناک نتائج کا باعث بنے ہوں۔ اس لیے ان کی بازگشت سنتے ہی دل میں اندیشے سرسرانے لگتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں گورنر راج پر مشوروں کی چہ میگوئیاں سنیں تو ستر سال پہلے مشرقی پاکستان میں مرکزی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ گورنر راج کا خیال آیا جو کئی اعتبار سے تاریخ پاکستان کا بہت اہم واقعہ ہے۔ اس وقت بھی وفاق اور صوبہ آمنے سامنے آگئے تھے اور اس کے ڈانڈے مشرقی پاکستان کے انتخابی نتائج سے ملتے تھے۔

مارچ 1954 میں مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جگتو فرنٹ نے حکمران جماعت مسلم لیگ کا صفایا کر دیا۔ اس  کے صرف 9 امیدوار کامیابی حاصل کرسکے۔ اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کے لیے کم ازکم دس اراکین ضروری تھے اس لیے مسلم لیگ کو  ایک آزاد رکن فضل القادر چودھری کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔

ان انتخابات میں نور الامین کی شکست کا حوالہ اہم ہے  جو مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ اور مشرقی پاکستان مسلم لیگ کے صدر تھے۔ یہ الیکشن ان کی دونوں حیثیتوں پر عدم اعتماد کا کھلا اظہار بن گیا۔ الیکشن میں وہ اپنی سیٹ بھی بچا نہ سکے اور ایک طالب علم سے ہار گئے۔

بنگالی عوام کے فیصلے نے مرکزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس  تاریخی فتح کے بعد مرکز نے جگتو فرنٹ کو حکومت بنانے کے لیے دعوت دینے میں لیت ولعل سے کام لیا۔ انتخابات کے دو ہفتے بعد چٹاگانگ کی چندر گونا پیپر ملز میں بہاری بنگالی فسادات پھوٹ پڑے۔

 معروف صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خان ‘ جیون ایک کہانی’ میں لکھتے ہیں:

 ‘یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا۔ اس کی ہر جانب سے مذمت کی گئی، لیکن مرکزی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح اس کی ذمہ داری بنگالی قوم پرستوں اور جگتو فرنٹ میں شامل جماعتوں پر ڈال دی جائے۔’

بہر حال الیکشن کے ایک ماہ بعد کرشک سرامک پارٹی کے سربراہ اے کے فضل الحق نے جگتو فرنٹ کے امیدوار کی حیثیت سے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا جس کے چند دن بعد وہ کلکتہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف بات کی اور کہا کہ بھارت اور پاکستان ان کے لیے غیر مانوس لفظ ہیں۔ اس سے بڑھ کر بنگال کو متحد کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ اس بیان کے بعد سیاسی مخالفین کی نظروں میں وہ غدار ٹھہرے۔ انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔

دورے سے واپسی پر ان کے پرائیویٹ سیکرٹری الطاف گوہر نے اس بیان پر مرکزی حکومت اور ان کے ساتھیوں کی ناراضی کا بتایا تو انہوں نے سیکرٹری سے پوچھا ’تمھارا اپنا کیا خیال ہے؟‘ الطاف گوہر نے اسے انتہائی نامناسب اور بے موقع قرار دیا تو فضل الحق نے کہا:

‘اگر یہ بات تھی تو تم نے اس کی فوراً تردید کیوں نہ کر دی۔ بطور پرائیویٹ سیکرٹری تمہارا فرض ہے کہ اگر تمہیں میرا کوئی بیان نامناسب معلوم ہو تو مجھ سے پوچھے بغیر اس کی تردید کر دو۔’

یہ بیان اس لیے بھی حیران کن تھا کہ فضل الحق ہندوستان کی تقسیم سے پہلے بنگال کو متحد رکھنے اور اسے تقسیم سے بچانے کی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں رہے تھے۔

فضل الحق نے مرکزی حکومت سے بگڑتے تعلقات کے تناظر میں جگتو فرنٹ میں شامل جماعتوں سے سیاسی قربت بڑھائی۔ 10 مئی کو پلٹن میدان میں عوامی لیگ کے جلسے میں اچانک جلوہ گر ہو کر اعلان کردیا کہ آئندہ وہ  مولانا بھاشانی کی ہدایات کی روشنی میں حکومت چلائیں گے۔

اس کے بعد 15 مئی کو انہوں نے جگتو فرنٹ کی دیگر پارٹیوں کے اراکین کو بھی  کابینہ میں شامل کرلیا۔ حلف برداری کی تقریب کے دوران نرائن گنج میں آدم جی جوٹ ملز میں بنگالی اور غیر بنگالی افراد کے درمیان فسادات کی خبر گورنمنٹ ہاؤس پہنچی تو وزیر اعلیٰ اور کابینہ ارکان سیدھے جائے حادثہ پر پہنچے۔ چندر گونا پیپر ملز کے مقابلے میں یہ فسادات کہیں زیادہ خوف ناک اور وسیع پیمانے پر ہوئے تھے جس میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔

ان فسادات پر مرکزی حکومت کی طرف انگلیاں اٹھائی گئیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے اپنے بیان میں اسے جگتو فرنٹ کی حکومت ختم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی سازش بتایا اور تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوری قوتوں سے اسے ناکام بنانے کے لیے مزاحمت کرنے کو کہا۔

بنگالی دانشور ،استاد اور پولیٹیکل سائنٹسٹ بدر الدین عمر نے ‘ ایمرجنس آف بنگلہ دیش’ میں فسادات میں مرکزی حکومت کو ملوث قرار دیا ہے۔

علی احمد خان نے لکھا ہے کہ اس مل کی جو یونین تھی اسے مولانا بھاشانی کی حمایت حاصل تھی اور اس نے جگتو فرنٹ کی انتخابی مہم میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔

 اس صورت حال میں جب جگتو فرنٹ کے حامی الیکشن میں کامیابی کے نشے سے سرشار تھے اور غیر بنگالی کاروباری طبقہ اور عام شہری جگتو فرنٹ کی جیت  سے خائف تھے۔ ادھر مرکزی حکومت کو بھی جگتو فرنٹ کی حکومت قبول نہ تھی، انتشاری قوتوں نے عوام کو بھڑکانے اور بھڑانے کے لیے یہ صورتحال سازگار جانی اور جلتی پر تیل چھڑکا۔

 انتخابی نتائج کے بعد صوبائی اسمبلی سے صوبائی خودمختاری کی قرارداد کی منظوری نے بھی مرکزی حکومت کو پریشان کر دیا تھا۔

ایک طرف صوبائی حکومت بحرانوں میں گھری تھی تو دوسری طرف فضل الحق کا شوق گل افشانی گفتار نہ تھمتا تھا۔ کلکتہ میں  گفتار کا اسلوب بے قابو ہونے کے نقصان کی ابھی تلافی نہیں ہوئی تھی  کہ نیو یارک ٹائمز میں ان کے  انٹرویو نے تہلکہ مچا دیا جس میں انہوں نے مشرقی  بنگال کی آزادی کی بات کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی تھی۔

بدر الدین عمر نے لکھا ہے کہ امریکی سفیر کی پاکستان میں کھلی سرگرمیوں کے تناظر میں ممکن ہے نیو یارک ٹائمز کے نمائندے نے پاکستان میں سیاسی صورتحال میں کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے فضل الحق کی گفتگو میں تھوڑی نمک مرچ لگا دی ہو۔ لیکن وہ یہ  بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فضل الحق بھی کوئی بہت زیادہ ذمہ دار سیاست دان نہیں تھے اور  مضمرات کی پروا کیے بغیر  بیانات دینے کے عادی تھے۔ اس بات کی تصدیق الطاف گوہر کے مضمون ‘ باتیں شیر بنگال مولوی فضل الحق کی ‘ سے بھی ہوتی ہے۔

نیو یارک ٹائمز والے انٹرویو کے معاملے میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ کا کردار افسوس ناک رہا جنہوں نے اپنے ملک کے منتخب وزیر اعلیٰ اور نیو یارک ٹائمز کے نمائندے کو آمنے سامنے بٹھا کر جواب طلبی کی۔ اس نشست میں فضل الحق نے اپنے سے منسوب بعض باتوں کی تردید کی جبکہ نیو یارک ٹائمز کا نمائندہ صحتِ متن پر اصرار کرتا رہا۔

آدم جی جوٹ ملز کے فسادات اور فضل الحق کے متنازع بیانات کو بنیاد بنا کر فضل الحق کی وزارت ختم کرکے گورنر راج لگا دیا گیا۔

جگتو فرنٹ کی حکومت کے ساتھ سیاسی ناانصافی اس دور میں ہو رہی تھی جب ایک بنگالی وزیراعظم تھا۔ محمد علی بوگرہ نے ریڈیو پر خطاب میں صوبے میں گورنر راج کے اسباب گنوائے تھے اور انہی نے برطانیہ میں زیر علاج اسکندر مرزا کو ٹیلی گرام بھیج کر فوراً پاکستان واپس بلایا تاکہ انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر لگایا جا سکے۔

مرکزی حکومت کی مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے میں سنجیدگی اور گورنر راج کے بارے میں قدرت اللہ شہاب کا بیان کل کی طرح آج بھی قابلِ غور ہے۔:

‘مسٹر غلام محمد کی صدارت میں نت روز مرکزی کابینہ کے اجلاس ہوتے رہتے تھے، لیکن ایسا اجلاس کبھی نہ ہوا جس میں مشرقی پاکستان کی نئی صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ سیاسی تجزیہ کیا جائے۔ کابینہ کا اجتماعی ذہن نوکر شاہی کی لکیر کا فقیر تھا۔ وہ مشرقی پاکستان میں ابھرتی ہوئی نئی سیاست کا جواب سیاست سے دینے کی اہلیت نہ رکھتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تو وہی فرسودہ نو آبادیاتی فارمولا تھا کہ اگر صوبائی حکومت پسند خاطر نہ رہے تو اسے برطرف کر کے صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔’

فضل الحق کی وزارت کے خاتمے میں امریکی کردار کا حوالہ بھی کتابوں میں موجود ہے۔ بدر الدین عمر نے امریکی سفیر کی سرگرمیوں کا حوالہ دیا ہے اور اس کے جگتو فرنٹ کی حکومت کے خلاف بیان کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

 وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کا امریکا سے قرب کھلا راز ہے۔ گورنر راج کے بعد صوبے کی زمام کار اسکندر مرزا کو سونپنے سے بھی بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔

علی احمد خان نے لکھا ہے:

‘ایک خیال یہ بھی تھا کہ چونکہ عوامی لیگ اور جگتو فرنٹ کی بعض دوسری پارٹیوں کی جانب سے امریکا کی طرف سے ملنے والی فوجی امداد پر نکتہ چینی کی جارہی تھی اس لیے امریکا کے دباؤ کے تحت صوبائی حکومت توڑ دی گئی تھی… بہر حال وجہ جو بھی ہو، مرکزی حکومت کے اس اقدام سے ملک کے دونوں حصوں میں جو مغائرت پیدا ہو رہی تھی اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ صرف اردو دان طبقہ تھا جس نے مرکزی حکومت کے اس اقدام پر بڑی بغلیں بجائیں۔’

اسکندر مرزا بھی برطانوی دور سے ورثے میں ملنے والی نوکر شاہی کی نشانی تھے۔ انہوں نے گورنر بننے کے بعد جگتو فرنٹ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کرایا۔ صوبائی اسمبلی کے بہت سے ارکان بھی جیل گئے جن میں صوبائی وزیر شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ فضل الحق کو نظر بند کر دیا گیا اور کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔

گورنر راج کے زمانے میں جگتو فرنٹ میں شامل جماعتوں میں اختلافات کو ہوا دی گئی۔ بڑے رہنماؤں کو وفاق میں شریک اقتدار کیا گیا۔ اوروں کا تو ذکر ہی کیا فضل الحق بھی اقتدار کی راہداریوں میں واپسی کے لیے اس محمد علی بوگرہ سے بات چیت کر رہے تھے جنہوں نے ان کی تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ غلام محمد کی نظروں میں وہ اب غدار نہیں بلکہ فرینڈ آف پاکستان بن چکے تھے۔ اور پھر چشم فلک نے اس ‘غدار’ اور ‘ ملک دشمن’ کو  1955 میں ملک کا وزیر داخلہ بنتے دیکھا اور 1956 میں انہیں مشرقی بنگال کا گورنر بنا دیا گیا جہاں سے انہیں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ہٹا کر گورنر راج لگایا گیا تھا۔

ادھر عوامی لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی نے گورنر جنرل غلام محمد کا کہنا مان کر پارٹی کے لوگوں کی رائے کے بر خلاف وزیر قانون بننا پسند کیا۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ فضل الحق اور سہروردی گورنر راج کے خلاف مزاحمت کرتے لیکن انہوں نے سپر ڈال دی۔

بنگالی سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی کچھ ماہ بعد اس وقت بھی سامنے آئی جب گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔ ایک طرف بنگالی اسپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین اپنا مقدمہ عدالتوں میں لڑ رہے تھے تو دوسری طرف حسین شہید سہروردی گورنر کے اقدام  کی تائید کر رہے تھے۔شیخ مجیب الرحمٰن نے جیل سے گورنر کو اسمبلی توڑنے پر مبارکباد کا پیغام بھیجا تھا۔

 پارٹیوں میں نفاق ڈالنے کے بعد مرکزی حکومت نے گورنر راج اٹھا لیا لیکن سیاسی عمل انتشار کا شکار رہا۔ اسمبلی میں ہنگامے ہوتے رہے۔ وزیر اعلیٰ ابو حسین سرکار کی سرکار کی حالت اتنی پتلی تھی کہ  بجٹ کی منظوری کے لیے یک روزہ گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ عوامی لیگ کے عطاء الرحمٰن خان وزیر اعلیٰ بنے تب بھی سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوا۔

سیاسی ابتری کا بدترین مظہر ڈپٹی سپیکر شاہد علی کا اسمبلی میں تشدد سے زخمی ہونے کے دو  دن بعد جاں سے گزرنا تھا۔

 یہ سارے حالات مرکزی حکومت کی طرف سے عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے جس کی ذمہ داری بنگالی سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اس سازش کو ناکام نہیں بناسکے اور عہدوں کے دام  میں آگئے۔ سہروردی اور فضل الحق اس کی نمایاں مثال ہیں۔

1954 میں مشرقی بنگال کے انتخابی نتائج نے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان سے  اسٹیبلشمنٹ کے دل میں انتخابات کا خوف بیٹھ گیا۔  اسکندر مرزا اور ایوب خان نے 1958 کا مارشل لا بھی الیکشن سے فرار کے لیے لگایا تھا جسے امریکا کی تائید بھی حاصل تھی۔

دوسرے ان الیکشن کے بعد ہی ون یونٹ کے خیال کو عملی شکل دے کر بنگالیوں کی اکثریت کا ‘ علاج’ کیا گیا۔

یہ انتخابات عوامی مینڈیٹ کی اس  توہین کی تمہید بھی تھے جس کی انتہا متحدہ پاکستان میں ہم نے 1970 کے الیکشن کے بعد دیکھی اور آج بھی  ہم اس بدنما تاریخ کے بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp