پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان آخر کار مذاکرات کی ابتدا ہو چکی ہے اور اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے ایک مذاکراتی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ اب بھی کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے تردید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کسی صورت مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے باقائدہ مذاکرات کی شروعات کے حوالے سے بھی کہا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان پارٹی رہنماؤں پر عدم اعتماد کرچکے، مذاکرات کس سے کریں؟ خواجہ آصف
دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’4 ماہ میں مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو تحریک چلانی پڑے گی لیکن مذاکرات سے مسائل کا حل نکلے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی‘۔
اس موضوع پر ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ 24 نومبر کے دھرنے کے بعد سے کیا ہے کیوں کہ وہ یہ توقع نہیں کر رہی تھی کہ اس کے ساتھ اس طرح سے سختی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اب یہ چاہتی ہے کہ مزید سڑکوں پر نکل کر جلاؤ گھیراؤ کا راستہ اپنانے کے بجائے مذاکرات کی طرف آئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ مذاکرات 24 نومبر سے پہلے کیے جاتے یا 24 نومبر کے دن ہی ان مذاکرات کو شروع کر دیا جاتا تو تحریک انصاف زیادہ اچھی بات چیت کی پوزیشن میں ہوتی لیکن اب اس طرح سے ایک اچھی ڈیل نہیں مل پائی گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان مذاکرات کے سلسلے میں ان کے لیے کچھ نہ کچھ آسانی پیدا ہوجائے کیونکہ اعتماد سازی کا فقدان تو ہے لیکن اس کے باوجود حکومت بھی یہ چاہتی ہے کہ اس معاملے کو کسی نہ کسی طرح حل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے: رانا ثنا اللّٰہ کا تحریکِ انصاف سے مذاکرات پر بڑا اعلان
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ دوسری جانب حکومت کے کئی وزرا اس وقت تحریک انصاف کو طعنوں تشنوں کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں کہ پہلے تو یہ مذاکرات کی طرف نہیں آ رہے تھے لیکن اب ایسا کیا ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہی لگتا ہے کہ 24 نومبر کے احتجاج کے بعد تحریک انصاف کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے کیونکہ انہیں اس احتجاج کے وہ نتائج نہیں مل پائے جن کی وہ توقع کر رہے تھے۔
سیاسی تجزیہ کار عثمان رانا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے مجھے پاکستان تحریک انصاف کی حکمت عملی اب بھی کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔
عثمان رانا نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیل کے اندر کی لیڈرشپ اور جیل کے باہر کی لیڈرشپ کی پالیسیوں میں تضاد ہے اور باہر کی لیڈرشپ میں سے 50 فیصد کا کہنا ہے کہ ہمارے حکومت سے ابتدائی مذاکرات ہو چکے ہیں اور بات چیت آگے بڑھ رہی ہے اور رابطے ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن دوسری جانب انہی کے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رابطہ نہیں ہوا اور پھر بانی پی ٹی آئی کا جو بیان کل سامنے آیا اس سے ایک مختلف صورتحال ظاہر ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے تو مکمل عدم اعتماد ظاہر کیا ہے اور ان کی جانب سے یہ تک کہا گیا ہے کہ مجھے پتا ہے کہ باہر کیا ہو رہا ہے لیکن ہونا وہی ہے جو عمران خان خود طے کریں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومت نے شرائط رکھ دیں
عثمان رانا کا کہنا تھا کہ جیل سے باہر بیٹھے پی ٹی آئی کے کچھ لیڈر عمران خان کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں جیسے وہ کسی بھی صورت سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اسی طرح عمران خان کے قریبی ذرائع بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی صورت نہیں مانیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اب جبکہ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جا چکی ہے تو ایک دم سے چیزیں بدلتی ہوئی نظر آئی ہیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی باتیں شروع ہوگئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے کمیٹی بھی بنالی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف وہ مذاکرات کرنا بھی چاہ رہے ہیں اور کمیٹی بھی بنادی ہے جبکہ دوسری طرف شرائط بھی عائد کر رہے ہیں کہ 15 دسمبر سے قبل یہ تمام چیزیں کی جائیں جس کے بعد ہم مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
عثمان رانا نے کہا کہ اس کے علاوہ عمران خان کا کل کا بیان بھی کنفیوژن میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے تاہم اس وقت تو پاکستان تحریک انصاف اگر سیاست میں اپنے لیے کسی قسم کی گنجائش پیدا کرنا چاہتی ہے تو اسے پارلیمانی سیاست میں فعال ہونا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے: بیرسٹر گوہر سے اختیارات واپس، حکومت سے مذاکرات کے لیے ڈیڈ لائن دے دی گئی
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اظہار بھی کیا ہے کہ اس نے پارلیمنٹ کے فورم پر اپنے مطالبات رکھے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر اور باقی رہ رہنماؤں نے تقریر بھی کی ہے جس کا حکومت نے مثبت جواب بھی دیا ہے اور خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں اور حکومت مطالبات سننے کے لیے تیار ہے۔