کیا عمران خان کا ملٹری ٹرائل ہوگا؟

پیر 16 دسمبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان وہ ملک ہے جہاں کچھ بھی اور کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ آج سے چند سال پہلے تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک بیانیہ تھا کہ فوج اور عمران خان نہ صرف ایک پیج پر ہیں بلکہ یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ انہوں نے اگلے 10 سال تک کا باقاعدہ پلان بھی بنایا ہوا ہے جس کے تحت ملک کی حکمرانی عمران خان کے پاس اور فوج کی قیادت جنرل فیض حمید کے پاس ہی رہے گی اور دونوں مل کر اگلے 10 سال تک حکومت چلائیں گے۔ لیکن وقت کا پہیہ کچھ ایسا گھوما کہ آج عمران خان تو جیل میں ہیں اور جنرل فیض حمید جیسا طاقتور جرنیل کورٹ مارشل کا سامنا کررہا ہے جس کے نتیجے میں ان کو سخت سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک سول نافرمانی 

اگست 2024 میں جب آئی ایس پی آر کی طرف سے پریس ریلیز کے ذریعے بتایا گیا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے اور ان کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے تو کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ اس قدر طاقتور جرنیل جو کہ اپنے وقت میں پورے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا تھا اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی کچھ بھی ممکن ہے لہٰذا ان کے ساتھ بھی وہی ہوا۔

جنرل فیض کے خلاف تحقیقات اور تفتیش کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ تمام تر ثبوت اکٹھے کرنے اور تفتیش کرنے میں کئی ماہ لگ گئے لیکن بالآخر پچھلے ہفتے ایک بار پھر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری پریس نوٹ کے ذریعے قوم کو یہ بتایا گیا کہ تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں اور جنرل فیض حمید پر فرد جرم بھی عائد کی جاچکی ہے اب باقاعدہ ان کے ٹرائل کا آغاز ہوگا۔

آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے بھی ثبوت ملے ہیں۔ کسی بھی فوجی افسر کے خلاف ثابت ہوجانے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی انتہائی سنگین نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 3 بنیادی نکات یا خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ٹاپ سیکرٹ دستاویز کسی فوجی افسر سے ملے جسے وہ رکھنے کا مجاز نہ ہو، دوسرا یہ کہ کوئی ٹاپ سیکرٹ دستاویز وہ گم کردے یا پھر تیسرا اہم جرم یہ ہے کہ وہ کوئی ٹاپ سیکرٹ انفارمیشن یا ڈاکومنٹ کسی دشمن ملک کے جاسوسوں سے شیئر کردے۔ ان جرائم پر کسی بھی آفیسر کو سخت سزا دی جاسکتی ہے۔ گویا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام جنرل فیض حمید کے لیے انتہائی سنگین ثابت ہوسکتا ہے۔

پی ٹی آئی نفسیاتی جنگ ہار گئی

جس دن جنرل فیض حمید پر فرد جرم عائد کی گئی اس کے 2 دنوں بعد ایک اور اہم پیش رفت بھی ہوئی اور وہ ہے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی طرف سے پی ٹی آئی کے 85 ورکرز اور سپورٹرز کا ملٹری کورٹس میں چلنے والے مقدمات پر فیصلہ سنانے کی اجازت دینا۔ اس فیصلے کے بعد گویا ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ کیا اب عمران خان کا بھی 9 مئی کے مقدمات کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا؟

بظاہر حالات و واقعات اور اب تک ملنے والی اطلاعات سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل فیض حمید سے ملنے والے ثبوتوں سے یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ ان کے روابط پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ تھے لیکن یہ اب تک واضح نہیں ہوپایا کہ آیا جنرل فیض حمید اور عمران خان کے درمیان 9 مئی سے متعلق بھی کوئی ثبوت ملے ہیں؟ کیونکہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں اس بات کا تو ذکر ہے کہ سیاسی معاملات اور 9 مئی سے متعلق علیحدہ سے تحقیقات ہورہی ہیں۔ اگر تو ان تحقیقات سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی کنکشن تھے تو پھر عمران خان کا مقدمہ غالباً فوجی عدالت میں چلایا جائے۔

ان تمام ثبوتوں اور اب تک کی ہونے والی پیش رفت کے بعد تاہم فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ جنرل فیض کی طرح عمران خان کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے۔ اس کی 2 وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فی الحال عمران خان کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کا مقدمہ اگر فوجی عدالت میں چلایا گیا تو بین الاقوامی سطح پر فوجی قیادت اور حکومت پر دباؤ پڑسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر عوامی پریشربھی پڑ سکتا ہے کیونکہ اس سے بہرحال عمران خان کے لیے ہمدردیاں بڑھیں گی۔ اور دوسری وجہ یہ ہے پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت بھی یہ نہیں چاہے گی کہ کسی سیاسی لیڈر کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلے کیونکہ وقت کا پہیہ گھومتے دیر نہیں لگتی اور مستقبل میں کہیں ان کا حشر بھی اسی طرح کا نہ ہو۔

مزید پڑھیں: کیا رنگ لائے گا ایک اور احتجاج؟

اس لیے سیاسی قیادت بھی عمران خان کے ملٹری ٹرائل کے لیے سنجیدگی دکھانے سے گریز کرے گی۔ آج سے 3، 4 سال پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہوجائے گا اور عمران خان کے خلاف اس طرح 200 کے قریب مقدمات درج ہوجائیں گے۔ یہ سیاستدان بہت دور تک کی سوچتے ہیں لہٰذا وہ کوئی ایسا کنواں نہیں کھودیں گے جس سے ان کو خدشہ ہو کہ کل کو وہ خود بھی اس میں گرسکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان سمیت علاقائی طاقتوں کی افغانستان میں غیر ملکی اڈوں کی مخالفت

حافظ نعیم کو یقین نہیں تو اڈیالہ آ کر عمران خان کا مؤقف سن لیں، پی ٹی آئی کی پیشکش

میری بات سے کسی کو دکھ پہنچا ہو تو معذرت خواہ ہوں، ایمل ولی خان

مریم نواز وزیراعظم بننے کی تیاری کررہی ہیں، فیصلہ وقت پر ہوگا، رانا ثنااللہ کا انکشاف

ارجنٹینا کے صدر کا راک شو، کتاب کی رونمائی سیاسی جلسے میں تبدیل

ویڈیو

صدر زرداری کا محسن نقوی کو اہم ٹاسک، کیا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خطرہ ہے؟

عربی زبان کے فروغ پرمکالمہ، پاکستان بھی شریک

شہریوں کے محافظ پولیس اہلکار جو فرض سے غداری کر بیٹھے

کالم / تجزیہ

ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی

سابق سعودی سفیر ڈاکٹر علی عسیری کی پاک سعودی تعلقات پر نئی کتاب

سعودی عرب اور پاکستان: تابناک ماضی تابندہ مستقبل