اسلام آباد میں 19 ستمبر 2014، بروز جمعہ کی ایک حبس زدہ شام کو عمران خان ایک بھرے مجمعے کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ ایک طرف ان کی پارٹی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کھڑے ہیں، دوسری طرف دیگر سینئیر قیادت اور انکے عین پیچھے موجودہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور ہیں۔ مجمع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان اسوقت کے حکمرانوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔ “آپکی کرپشن کی قیمت میں مہنگی بجلی سے کیوں دوں؟ اس لیے میں اپنا بجلی کا بل جلانے لگا ہوں۔ انشااللہ میں کراچی جاؤں گا اور کراچی کے لوگوں سے بھی بجلی کے بل جلواؤں گا۔“
عمران خان کی دیکھا دیکھی مجمع میں شریک ان کے فالوورز اور پارٹی ورکرز میں سے کسی نے اپنے بجلی/گیس کے بل جلائے اور کسی نے پھاڑ کر سول نافرمانی میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ وہ دن تھےجب میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی مکمل طور پر پشت پناہی کررہی تھی تاکہ نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا جاسکے۔
گویا اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت کیساتھ عمران خان نے لوگوں کو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی اپیل کی اور اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ وہ ترسیلات زر بھیجنا بند کردیں۔ اس تمام تر سپورٹ اور 24 گھنٹوں میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ کوریج ملنے کے باوجود عمران خان کو خود ہی اپنے گھر کا بجلی کا بل ادا کرکے اس تحریک کو ختم کرنا پڑا اور بہانہ یہ بنایا کہ سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہیں نہایا جاسکتا اس لیے وہ بل ادا کررہے ہیں۔
عمران خان کے اس بیان کو لوگوں نے مذاق سمجھا لیکن جو وضاحت عمران خان نے اس وقت دی تھی وہی اس عوام کی ضرورتوں اور حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے۔ جذبات میں آکر بالفرض اس وقت لوگوں نے اپنے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنا چھوڑ دیے تھے تو اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ واپڈا اور سوئی گیس والوں نے ان کے میٹر عدم ادائیگی کی وجہ سے کاٹ دیے اور پھر بل ادا کرکے دوبارہ میٹر لگوانے پڑے کیونکہ نہ بجلی کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے اور نہ ہی گیس کے بغیر۔
ہر ذی شعور انسان کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ماضی کے تجربات اور واقعات کا جائزہ لیتا ہے۔ اور اگر ماضی کے نتائج موافق نہ ہوں تو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتا جس سے کہ ناکامی کا احتمال ہو۔ عمران خان کوئی عام شخص نہیں بلکہ پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کا لیڈر ہے۔ معلوم نہیں انہوں نے ایسا فیصلہ کیسے کرلیا کہ ماضی میں ایک پالیسی جو کہ بری طرح ناکام ہوچکی ہو پھر سے اسی پالیسی کا اعلان کرلیا جائے؟ 2014 کی سول نافرمانی کی تحریک بری طرح ناکام ہوئی اور وہ بھی تب جب اس وقت کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی اور مقابلے میں کمزور اور ناتواں سویلین حکومت اور اس کے کچھ سیاسی جماعتوں کی صورت میں اتحادی۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیا سوچ کر عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ بھی اس وقت جب ایک صوبےمیں ان کی اپنی پارٹی کی حکومت ہے اور دوسرا ابھی چند دن پہلے فائنل کال کی صورت میں احتجاج کے ناکام ہونے کے بعد پارٹی کے اندر اختلافات عروج پر ہیں؟ کیا عمران خان نے یہ نہیں سوچا کہ اگر سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو ان کی اپنی جماعت کی خیبر پختونخوا میں حکومت جو پہلے ہی شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اس پر کیا اثرات پڑیں گے؟ اگر خیبر پختونخواہ کے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے ہوئے بلز ادا نہیں کرتے تو صوبائی حکومت روزمرہ کے معاملات کیسے چلائے گی؟ اور اگر پختونخوا کی عوام اس تحریک میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سول نافرمانی شروع نہیں کرتی تو پھر باقی تین صوبوں اور وفاق میں عام عوام کیونکر اس تحریک میں شامل ہوگی؟
اس سے بھی اہم سوال یہ کہ عمران خان نے لوگوں سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجیں ۔تو کیا خان صاحب نے یہ سوچا ہے کہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی ایک بہت بڑی تعداد جو کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مزدوری کرتی ہے اور اسی سے ہی ان کے پاکستان میں رہنے والے خاندان کا گزر بسر ہوتا ہے کیا وہ اپنے خاندان کو پیسے نہ بھیجنا افورڈ کرسکتے ہیں؟
اس تحریک کے ہر پہلو پر اگر غور کریں تو اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ کسی بھی صورت یہ تحریک قابل عمل نہیں۔ معلوم نہیں ایسی تحریک کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی پہلو کے بارے عمران خان یا ان کو مشورہ دینے والوں نے اس پر غور کیوں نہیں کیا؟ ایک دوراندیش رہنما کبھی بھی بغیر سوچے سمجھے کوئی فیصلہ نہیں لیتا لیکن پچھلے چند سالوں سے عمران خان کے ہر فیصلے کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان دوراندیشی سے کوسوں دور ہیں۔
عمران خان کو چاہیے کہ سیاست کے میدان میں اگر پھر سے اپنے لیے کوئی جگہ بنانی ہے تو سب سے پہلے اپنی پارٹی کے سینئیر رہنماؤں کو فیصلہ کرنے کے اختیارات دینا ہونگے۔ ان رہنماؤں کو دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ ڈائیلاگ کرنے اور مذاکرات کی اجازت دینی چاہیے۔ سیاستدان بات چیت کے ذریعے کوئی نہ کوئی حل اور راستہ ڈھونڈ لاتے ہیں۔ ورنہ اسطرح تصادم اور ٹکراؤ کی پالیسی سے آپ چاہے جتنے بھی مقبول لیڈر ہوں پوری ریاست کیساتھ لڑائی مول نہیں لے سکتے۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ دیواروں سے ٹکرانے کی بجائے سیدھے دروازے سے سسٹم کے اندرواپس آئیں۔ ورنہ اسی طرح کے بے اثر اور بغیر نتائج کے احتجاج اور تحریکوں سے اپنا ہی نقصان کرتے رہیں گے۔