گھمسان کا رن پڑنے والا ہے

بدھ 18 دسمبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مدارس بل پر مولانا اور حکومت کے اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ مولانا کے پاس اپنے شکوے ہیں اور حکومت کے پاس اپنی وضاحتیں۔ تعلقات میں رخنہ پڑ چکا ہے۔ ابھی تک طرفین کی جانب سے بیان بازی شروع نہیں ہوئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب الزامات اور اختلافات کے پبلک ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہر روز مولانا کی جانب سے ایک بیان آتا ہے اور ہر روز حکومت کی جانب سے ایک وضاحت جاری ہوتی ہے۔ ابھی تک دونوں محتاط انداز میں کھیل رہے ہیں۔ لیکن کب تک؟

بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔  پی ٹی آئی نے نہ کبھی مدارس کی تعلیمی اور مذہبی اہمیت کو سمجھا ہے نہ اسے حکومت کی جانب سے کی جانے والی احتیاطوں سے کوئی غرض ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو صرف اس بات سے مطلب ہے کہ لڑائی ہونے والی ہے اور اس لڑائی کی مدد سے وہ  اپنی ڈوبتی نیا کو پار لگا لیں گے۔ تحریک انصاف کے زوال کے بعد یہ ان لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے کہ وہ مسلسل کسی انتشار، اختلاف اور احتجاج کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کا نقصان کر کے جشن مناتی ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہلواتی ہے۔

چھبیسویں آئینی ترمیم کے معاملے میں جب حکومت کو مولانا کی ضرورت تھی تو ہر کوئی مولانا کی بلائیں لے رہا تھا۔ بلاول بھٹو اٹھتے تو وزیر اعظم حاضر ہوتے، وزیر اعظم رخصت ہوتے تو محسن نقوی آ جاتے۔ ان سے فرصت ملتی تو پی ٹی آئی کا وفد آ جاتا۔ اس وقت مولانا نے جو کہا وہ حکومت نے من و عن تسلیم کیا۔ ہر قسم کا قول قرار کیا۔ انکار کا لفظ تک  زبان پر نہیں آیا۔

اب چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہے۔ اب مولانا کے ساتھ حکومت کے تیور بدل رہے ہیں۔ لہجوں میں تلخی سی در آئی ہے۔ اب آئی ایم ایف کی تاویلیں دی جا رہی ہیں۔ اب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کے خطرے کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ اب ورلڈ بینک کی طرف سے پابندیوں کے خطرے سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ مولانا کچھ شرائط میں نرمی کریں تو بات ہو سکتی ہے۔ اب پندرہ بورڈوں میں سے دس کی بات صائب مانی جا رہی ہے۔ اب وزارت تعلیم کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کی بات کی جا رہی ہے۔

مدارس وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ہوں گے یا وزارت صنعت کے، اس کے بارے میں حکومت کو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب حکومت مولانا کے قدموں میں پڑی ہوئی تھی۔ اس وقت نہ کسی کو آئی ایم ایف یاد آیا نہ ورلڈ بینک نہ کسی نے ایف اے ٹی ایف کے بارے میں سوچا نہ بین الاقوامی پابندیوں کا کسی کو خیال آیا۔ اس وقت بس چھبیسیوں آئینی ترمیم حکومت کے سر پر سوار تھی۔ جیسے ہی وہ ترمیم منظور ہوئی مولانا نے اپنا مطالبہ دہرا دیا۔ اعتراض تو صدر مملکت نے لکھا ہے مگر سب جانتے  کہ اعتراض ہے کیا، کیوں ہے اور کس کا ہے؟

اب مولانا بھی ضد پر اتر آئے ہیں۔ اب طبل جنگ بجا دیا ہے اور گھمسان کا رن پڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ مولانا نے دھمکی دی ہے کہ اب فیصلہ سڑکوں پر ہو گا۔ اب ان کے کارکن میدان میں اتریں گے، اب ملین مارچ ہو گا اور پورے ملک سے مولانا کے جاں نثار ڈی چوک پر آئیں گے۔ دھرنا بھی ہوگا اور لانگ مارچ کا بھی اندیشہ ہے۔ اب خون خرابہ ہوگا۔ اس وقت تک دھرنا ہوگا جب تک مطالبات نہیں مانے جائیں گے۔

اب یہ دھرنا ہوتا ہے کہ نہیں، اس کا فیصلہ تو حکومت اور مولانا کا رویہ کرے گا لیکن اس وقت پی ٹی آئی والوں نے ڈھول سنبھال لیا ہے۔ موٹر سائیکلیوں کے سائلنسر نکال دیے ہیں۔ زہریلے تھمب نیل بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ مٹھائیوں کی دکانوں پر ایڈوانس بکنگ کروا دی ہے کیونکہ انہیں مولانا کے انقلابی مارچ میں پی ٹی آئی کے مقاصد مضمر نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے اگر مولانا مارچ پر بضد رہے، ان کے کارکن مشتعل رہے تو مولانا اور پی ٹی آئی کا ایک ایسا عظیم الشان اتحاد قائم ہوگا جو عمران خان کی رہائی پر منتج ہوگا۔ اور اس کے بعد امریکا کی مدد سے عمران خان پھر برسر اقتدار آئے گا۔ پھر یو ٹیوبرز کے چینلوں کی رونقیں بحال ہوں گی، پھر ٹک ٹاکرز ملکی سیاست کے فیصلے لکھیں گے، پھر فیس بک پر دور دشنام چلے گا۔ اور ٹوئیٹر پر لگامیں کھول دی جائیں گی۔ شرفاء کی عزتوں کو تماشا بنایا جائے گا اور لوگوں کے گھروں پر سنگ باری کی وڈیوز بنائی جائیں گی اور انہیں وائرل کیا جائے گا۔

کیا واقعی پی ٹی آئی اور مولانا کا اتحاد ہوجائے گا؟ پی ٹی آئی والوں کے سپنے اپنی جگہ لیکن مولانا اور پی ٹی آئی کا اتحاد بہت ہی مشکل ہے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔

ایک تو دونوں قوتوں کا ہیڈ کواٹر خیبر پختونخوا ہے۔ اتحاد کے معانی یہ ہوں گے کہ  کسی کو اپنے حصے کی جگہ دوسرے کو دینا پڑے گی اور سیاست میں نہ اتنے فراخ دل مولانا ہیں نہ اتنی وسعت قلبی پی ٹی آئی کو میسر ہے۔

دوسرا طرفین کا طرز سیاست بالکل مختلف ہے۔ مولانا کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر آج تک مولانا کے کسی بیان یا تقریر میں ایک بھی ناشائستہ جملہ نہیں کہا گیا۔ دوسری جانب عمران خان نے آج تک اپنی کسی بھی تقریر اور بیان کو اس وقت تک مکمل نہیں کیا جب تک ان میں ناشائستہ جملوں کی بھرمار نہ ہو جائے۔ جتنی تضحیک اور تذلیل عمران خان نے مولانا کی کی ہے اس کے بعد مولانا کے کارکن پی ٹی آئی کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔

خیال نہیں اندازہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی او ر مولانا میں اتحاد ہوا تو منظرایسا ہوگا کہ دونوں پہلوان چت ہو جائیں گے۔ دونوں کے بیانیے کو شکست ہو گی اور سیاست پر لوگوں کا رہا سہا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا۔  فی الوقت یہیں پر بات ختم کی جا سکتی ہے کہ گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp