قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل 

بدھ 18 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ سپنا کو وہ دن آج بھی یاد ہے جب ان کا اسکول بم سے اڑا دیا گیا تھا۔ ’اسکول اڑانے والے میری ہمت اور حوصلے کا کچھ نہ بگاڑ سکے بلکہ میرے ارادے اور مضبوط ہوتے گئے کہ میں اپنی تعلیم مکمل کر کے رہوں گی۔‘

15 سال قبل علاقے میں بڑھتی شدت پسندی کی وجہ سے سپنا کو اپنے کنبے سمیت اپنا علاقہ اور گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس کے باوجود انہوں نے بہترین مستقبل کے سپنے کی تعبیر کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ آج سپنا پشاور یونیورسٹی میں سوشیالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

لڑکیوں کی اسکول وینز بھی محفوظ نہیں تھیں

گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول خار، باجوڑ کی ٹیچر ناہید بی بی نے بتایا کہ 2008 میں آئے روز ان کے اسکول کو دھمکی آمیز خطوط ملتے تھے۔ چادر پہننے پر پابندی لگ گئی تھی جس کی وجہ سے ٹیچرز اور لڑکیاں ٹوپی کا برقعہ پہنتی تھی۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں نے گاڑیوں کے ڈرائیورز کو بھی خطوط لکھے تھے کہ لڑکیوں کو اسکول نہیں لے جایا کریں ورنہ آپ لوگوں کا انجام برا ہوگا۔

ناہید بی بی نے مزید بتایا کہ ان کے ساتھ غیر مقامی سٹاف نے اسکول اور کالج آنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ کوئی بھی ان کے حفاظت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو لڑکیوں کے اسکول کے علاوہ گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان کی دو ساتھیوں کو گاڑی میں گولیاں لگی تھی جن میں سے ایک ہسپتال جاتے ہوئے زندگی کی بازی پار گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد طالبات اور اساتذہ میں انتہائی زیادہ خوف پھیل گیا تھا جس کی وجہ سے اسکول میں بچیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔

1500 اسکول متاثر ہوئے

فاٹا سٹوڈنس آرگنائزیشن اور ایوری چائلڈ اے سکالر کے بانی شوکت عزیز نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کے 2,248 اسکول تھے جن میں سے 1500 سے زیادہ اسکول عسکریت پسندی سے متاثر ہوئے، جبکہ 555 اسکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ وفاقی حکومت نے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ کیے گئے لڑکیوں کے 895 اسکولوں کی تعمیر نو کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں تعلیمی صورتحال انتہائی کمزور ہے جس میں لڑکیوں کی شرح خواندگی 7.8 فیصد کے قریب ہے۔ آدھے سے زیادہ اسکولوں میں فرنیچر، پینے کے پانی، بجلی اور واش رومز کی کمی ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو دور دراز علاقوں کے اسکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتے خاص طور پر جب وہاں پانی، واش رومز اور چار دیواری بھی نہ ہو۔

شوکت عزیز نے کہا کہ کچھ قبائلی اضلاع میں جب لڑکیاں خوف کی وجہ سے نہیں جاتی تھی تو اسکولوں کی عمارتوں کو مقامی عمائدین ذاتی استعمال یا ان میں جانور رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ جب بھی عسکریت پسندی سے اسکول تباہ ہوتے ہیں تو بچے کھلے آسمان تلے کلاسز لینے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ کچھ علاقوں میں تو اب بھی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو ایک کمرے میں بٹھایا جاتا ہے۔ قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں اب بھی آئے روز لڑکیوں کے اسکولوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں اور ان کے والدین کو خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

لڑکیوں کی شرح تعلیم انتہائی کم ہے

قبائلی ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نوشین فاطمہ، جو زفاش ادارے کی بانی بھی ہیں، نے بتایا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ عسکریت پسندی نے زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا میں تعلیم کے شعبے کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ لڑکیوں کے بہت سے اسکولوں کو مسمار کر دیا گیا تھا، اور عسکریت پسندوں نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ ان لڑکیوں کے پاس اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا جیسے کہ اپنی تعلیم جاری رکھنا، کسی پیشہ کا انتخاب کرنا، اور بڑے پیمانے پر معاشرے میں حصہ ڈالنا۔

نوشین فاطمہ نے بتایا کہ سابقہ فاٹا کی سالانہ تعلیمی مردم شماری 2017 کے مطابق پرائمری سطح پر صرف 37 فیصد لڑکیاں اور سیکنڈری سطح پر 5 فیصد لڑکیاں اسکول جا رہی تھیں، جبکہ پرائمری سطح پر 49 فیصد لڑکے اور سیکنڈری سطح پر 17 فیصد لڑکے تھے۔ یہ بھی بتایا کہ 3 سے 13 سال کی عمر کی 14.7 فیصد لڑکیوں نے کبھی کسی اسکول میں داخلہ نہیں لیا تھا۔

نوشین کے مطابق اب زندگی معمول پر آ چکی ہے اور والدین اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قبائلی اضلاع کے اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے بعد کی صورتحال

شوکت عزیز نے بتایا کہ خیبرپختونخوا حکومت کے مطابق قبائلی اضلاع میں 70 فیصد لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ دوسری جانب صوبائی وزیر تعلیم فیصل ترکئی نے کہا ہے کہ اے ایل پی (آلٹرنیٹ لرننگ پاتھ وے) پروگرام کے تحت صوبے کے 27 اضلاع میں 1250 سے زیادہ سینٹرز قائم کئے گئے ہیں جہاں 62 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت نے قبائلی اضلاع کے مدرسوں میں 300 سے زیادہ آلٹرنیٹ لرننگ پاتھ وے پروگرام (تعلیمی) سینٹرز کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ شوکت عزیز نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت زیادہ عمر ہونے کے باعث اسکولوں میں داخلہ نہ ملنے والے بچوں کو 18 ماہ میں کورسز مکمل کروائے جاتے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر جمیل چترالی کا کہنا تھا کہ آئی ایچ ایل (انٹرنیشنل ہیومنٹیریئن لاء) جینیوا کنوینشن کے مطابق جب بھی کسی جگہ پر جنگ یا تصادم ہوتا ہے تو وہاں کے بوڑھوں، بچوں، خواتین اور درسگاہوں اور ہسپتالوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے مگر دہشت گرد ہمیشہ ان ہی جگہوں اور لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے عوام میں خوف اور غم پیدا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے قبائلی اضلاع جنگ و تصادم کا شکار رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے قبائلی اضلاع تعلیمی لحاظ سے انتہائی پسماندہ ہیں۔ جمیل چترالی نے بتایا کہ اس تصادم، تنازع، قبائلی اقدار اور کمزور تعلیمی نظام کی وجہ سے لڑکیوں کی شرح خواندگی 7.8 فیصد ہے جو انتہائی کم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخواء بالخصوص قبائلی اضلاع میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے 2013 میں پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز اکیڈمی کی بنیاد رکھی تھی تاکہ نوجوانوں کو امن اور کنفلکٹ مینیجمنٹ کی تعلیم دی جا سکے۔ یہ ڈیپارٹمنٹ مرد و خواتین کے لیے یکساں تعلیمی مواقع پیدا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے کیونکہ قبائلی اضلاع کی لڑکیاں بھی معیاری تعلیم حاصل کرنے کی اتنی ہی حقدار ہیں جتنا کہ اور صوبوں اور علاقوں کی لڑکیاں۔

قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سابقہ ایم این اے اور فاٹا انضمام میں اہم کردار ادا کرنے والے شاہ جی گل آفریدی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں انضمام حکومت پاکستان کی جانب سے اس وقت کی خراب سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے، خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے اور بڑے پیمانے پر خطے میں امن اور خوشحالی لانے کے لیے ایک اہم قدم تھا، جو خوش اسلوبی سے ہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ سابقہ فاٹا میں خواتین کی شرح خواندگی انتہائی کم ہے جس کے لیے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع کے لوگوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہے مگر اب حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان کی صورتحال اور لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp