امریکی نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے لیس ایسے میزائل بنا رہا ہے، جو جنوبی ایشیا سے باہر اور امریکا میں بھی اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر جون فائنر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کا طرز عمل بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں ’حقیقی سوالات‘ کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان کے اقدامات کو امریکا کے لیے ابھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور طرح دیکھنا مشکل ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی پابندیوں میں ان 4 اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ یا ترسیل میں حصہ لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے امریکا کی جانب سے پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کی مخالفت کردی
رائٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا جوہری پھیلاؤ اور اس سے وابستہ خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔ یہ فیصلہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کے مسلسل پھیلاؤ کے خطرے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ان چاروں اداروں کو ایگزیکٹو آرڈر (ای او) 13382 کے تحت پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
پاکستان نے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) اور 3 تجارتی اداروں پر امریکی پابندیوں کومتعصبانہ قرار دے دیا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا تحفظ ہے، پابندیوں کی تازہ ترین قسط امن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے، اس کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا تو حکومت سامنا کرےگی، رانا ثنااللہ
بیان میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کی پالیسیاں ہمارے خطے اور اس سے باہر کے اسٹریٹجک استحکام کے لیے خطرناک مضمرات رکھتی ہیں۔ اسٹریٹجک پروگرام پر پاکستانی عوام کی مقدس امانت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے، ماضی میں بھی تجارتی اداروں پر پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔