وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ عمران خان ایک اسرائیلی اثاثہ ہے جس کے ذریعے وہ واحد مسلمان ایٹمی قوت کو خدا ںخواستہ سر نگوں کرنا چاہتے ہیں۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں خواجہ محمد آصف نے کہا کہ آپریشن گولڈ سمتھ کے ریکروٹ جہاں بھی موجود ہیں وہ عمران خان کی نجات کے لیے پاکستان کے مفادات کے خلاف بھر پور مہم چلا رہے ہیں۔ ان عناصر کو اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور وہ میڈیا میں تواتر کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان ایک اسرائیلی اثاثہ ہے جس کے ذریعے وہ واحد مسلمان ایٹمی قوت کو خدا ںخواستہ سر نگوں کرنا چاہتے ہیں۔
آپریشن گولڈ سمتھ کے ریکروٹ جہاں بھی موجود ھیں وہ عمران خان کی نجات کے لئے پاکستان کے مفادات کے خلا ف بھر پور مہم چلا رہے ھیں ۔ ان عناصر کو اسرائیل کی بھر پور حمایت حاصل ھے اور وہ میڈیا میں تواتر کے ساتھ گفتگو کر رہے ھیں۔ جس سے صاف ظاہر ھوتا ھے کہ عمران خان ایک اسرائیلی اثاثہ ھے…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) December 25, 2024
وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان کے لیے مغربی دنیا میں جو چند آوازیں اٹھ رہی ہیں ان پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم پاکستانی قوم اپنے مفادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں اور ہماری اول و آخر ترجیح صرف اور صرف پاکستان ہے۔
یاد رہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل نے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس وقت کے پاکستانی سربراہ حکومت سے بہترین تعلقات تھے، پاکستان کی جیل میں قید رہنما ٹرمپ کی طرح سیاست میں آؤٹ سائیڈر تھے،کامن سینس کی بات کرتے تھے۔
ایک امریکی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو انٹرویو دیتے ہوئے رچرڈ گرینل نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ جوکام چار سال میں کرنے میں ناکام رہی وہ آخری 45 دن میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک سوال پر رچرڈگرینل نے کہا کہ گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس وقت کے پاکستانی سربراہ حکومت سے بہترین تعلقات تھے، پاکستان کی جیل میں قید رہنما ٹرمپ کی طرح سیاست میں آؤٹ سائیڈر تھے،کامن سینس کی بات کرتے تھے۔
ان کا کہناتھا کہ چاہتے ہیں سابق وزیراعظم کو رہا کیا جائے ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ٹرمپ پر تھے، ترجمان محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پیچیدہ گفتگو کی، اصل بات یہی ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کو رہا کیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں امریکا نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے حوالے سے پاکستان کے چار اداروں پر پابندی لگائی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر کے مطابق ان چار پاکستانی اداروں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔
امریکی پابندیوں کا شکار ہونے والے پاکستانی اداروں میں اسلام آباد کا نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس اور کراچی میں قائم 3 ادارے اختر اینڈ سنز، ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل اور روک سائیڈ انٹرپرائیزز شامل ہیں۔
ایک تقریب سے خطاب میں امریکا کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر نےکہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے جو اسے جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف بشمول امریکا کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بناسکتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مبینہ تعاون کرنے پر 4 کمپنیوں پر پابندی کے معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا امریکی فیصلہ متعصبانہ ہے، پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔