سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کروانے کے لیے آرمی اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ عمران خان نے سوچ لیا تھا کہ عثمان بزدار کی کارکردگی ٹھیک نہیں لہٰذا ان کو ہٹا دینا چاہیے۔ پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ بنے تو خان صاحب کے کان بھرے گئے کہ وہ ہمارے لوگوں کے کام نہیں کرتے۔
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو میں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کا کہنا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی تو آئین پاکستان کو مانتی ہے وہ مداخلت کرے اور پنجاب میں الیکشن کروائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سبطین خان کے مطابق آرمی اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات کے لیے مداخلت کرنی چاہیے اگر وہ مداخلت کرکے پنجاب میں الیکشن کرواتے ہیں تو یہ ان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ بسم اللہ کرے اور اپنا کردار ادا کرے۔
ایک سوال کے جواب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ جون یا جولائی کا کہے تو ہم دیکھیں گے، تاہم وہ کہے تو سہی ہم ٹیبل پر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ الیکشن ہونگے۔ ہماری جماعت میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک دو بندوں پر اعتراض ہے لیکن انہیں الیکشن کروانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ سبطین خان نے شکوہ کیا کہ ایک طرف بیٹھنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ہماری لو گ اٹھائے جارہے ہیں۔
نمبر ٹو کہلانے والے خان صاحب کے کان بھرتے ہیں
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت میں نمبر ٹو کہلانے والوں نے خان صاحب کے کان بھرے کہ پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب تو بنا دیا گیا ہے وہ ہماری پارٹی کے کام نہیں کرتے ق لیگ کے لوگوں کے کام کرتے ہیں اس لیے جتنی جلدی ہو سکے اسمبلیاں توڑ دی جائیں، ایک ایک لمحہ ہم پر بھاری ہے۔ سبطین خان کے مطابق اتنی باتیں ہوتی نہیں تھیں جتنی خان صاحب کو بڑھ چڑھ کر بتائی جاتی تھیں، جس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی توڑنی پڑی۔
پنجاب اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں تھا
سبطین خان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ پنجاب اسمبلی ابھی نہ توڑی جائے ہمیں مزید کام کرنا چاہیے، لیکن خان نہیں مانے، وہ کہتے تھے کہ ملک اس وقت خطرناک صورتحال سے گزار رہا ہے اگر ہمیں معاشی اور سیاسی استحکام لانا ہے تو اسمبلیاں توڑنا پڑیں گی کیوں کہ ملک میں اس وقت سیاسی انتشار کا ماحول ہے، نئے الیکشن ہوں گے تو سیاسی استحکام آئے گا۔
سبطین خان کہتے ہیں کہ جب خان ایسی باتیں کرتے تھے تو پھر میرا دل کرتا تھا کہ ابھی فوری اسمبلیاں توڑ دینی چاہیے۔ ان کے مطابق جب میں نے پرویز الٰہی سے کہا کہ چیئرمین کہہ رہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس بھجوائیں تو پرویز الٰہی ہچکچا رہے تھے تاہم انہوں اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو بجھوا دی۔
وزیر اعلیٰ کے لیے نام سامنے آیا تو گرفتار کر لیا گیا
اسپیکر پنجاب اسمبلی کے مطابق عمران خان نے سوچا لیا تھا کہ عثمان بزدار کی کارکردگی ٹھیک نہیں، لہٰذا ان کو ہٹا دینا چاہیے، جس پر مختلف ناموں پر غور کیا گیا، میرے بارے میں خان صاحب نے کہا کہ سبطین کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔ جیسے ہی یہ بات پتا چلتی ہے تو مجھے دس دن بعد مائنز ٹھیکہ کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
سبطین خان کو گرفتار کرنے کے آرڈر اوپر سے آئے ہیں
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ جب مائنز ٹھیکہ کیس میں گرفتار کیا گیا تو جج نے نیب سے پوچھا کہ جس سمری کی آپ بات کر رہے ہیں یہ سبطین خان نے منظور کی تھی؟ تو نیب والوں کا جواب تھا نہیں۔کوئی منی لانڈرنگ کی ہے؟ نیب والوں کا جواب تھا نہیں۔ تو کیوں گرفتار کیا ہوا ہے؟ تو نیب والوں کا جواب تھا کہ ان کو گرفتار کرنے کے اوپر سے آرڈر ہیں، ہم یہ بتا نہیں سکتے کہ کس نے کہا گرفتار کرنے کے لیے۔ لیکن یہ آرڈر اوپر سے آئے ہیں۔ اس کے بعد جج صاحب نے 20 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا اور مجھے رہائی ملی۔
نیب حراست میں مجھ پر پریشر ڈالا گیا
سبطین خان کہتے ہیں کہ میں چودہ دن نیب کی حراست میں رہا، مجھ سے روز تفتیش ہوتی تھی۔ مجھ پر پریشر ڈالا جاتا تھا، ایک دن مجھ کہا گیا کہ کسی’ اے بی سی‘کا نام لے لو تمھیں فائدہ ہوگا میں نے کہا جب کسی نے کیا کچھ نہیں تو میں کیوں کسی کا نام لوں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو کس بات پر ڈانٹ پڑی؟
سبطین خان کا کہنا تھا جب میں رہا ہو کر واپس آیا تو عمران خان نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سے پوچھا کہ ابھی تک سبطین خان کا حلف کیوں نہیں ہوا تو عثمان بزدار نے کہا دو تین منسٹر کا ایک ساتھ حلف ہوگا۔ جس پر خان صاحب ناراض ہوئے اور عثمان بزدار کو کہا کہ فوری سبطین خان کا حلف لیا جائے تو پھر مجھ اکیلے کا حلف ہوا۔
عثمان بزدار کے ساتھ کام کرنے کا مزا نہیں آیا
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ مجھے بطور وزیر عثمان بزدار کے ساتھ کام کرنے کا مزا نہیں آیا، ہاں البتہ پرویز الٰہی کے ساتھ کام کرنے کا مزا آیا۔ بطور اسپیکر میرے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ تھی۔
پرویز الٰہی نے اپنی مرضی سے اسپیشل اسسٹنٹ رکھ لیے
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو بہت سارے اسپیشل اسسٹنٹ رکھ لیے گئے جب کہ کابینہ میں بیس وزیر بھی تھے۔ پرویز الٰہی نے میرے حلقے سے بھی ایک اسپیشل اسسٹنٹ رکھا لیا جس پر مجھے حیرت ہوئی۔ اس طرح مختلف حلقوں میں پرویز الٰہی نے اسپیشل اسسٹنٹ رکھ لیے جس پر پی ٹی آئی کی جانب سے اعتراضات بھی آئے۔
عمران خان کے تین سوال
سبطین خان کا کہنا تھا کہ چیئرمین صاحب ہر امیدوار سے آٹھ سے دس منٹ کا انٹرویو کر رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آپ پارٹی کے ساتھ کتنے مخلص ہیں؟ دوسرا سوال لانگ مارچ، دھرنوں میں کیا رول ادا کیا؟ اور تیسرا سوال یہ کہ اسمبلی کے اندر آپ نے کیا رول ادا کیا؟
سبطین خان کہتے ہیں کہ مجھ سے کسی کرمنل ریکارڈ کے حوالے سے نہیں پوچھا گیا۔
اسپیکر کا انتخاب الیکشن سے نہیں ہونا چاہیے
سبطین خان کا کہنا تھا میری تجویز ہے کہ اسپیکر کا انتخاب الیکشن کے ذریعے نہ کروایا جائے۔ اسپیکر کو متفقہ طور منتخب کروایا جائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کا الیکشن بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لارجسٹ پارٹی، اپوزیشن سے مشاورت کر کے کسی ایک نام پر متفقہ ہوجائے تو یہ زیادہ اچھا ہوگا، اس سے اسمبلی کے اندر ماحول میں بہتری آئے گی۔
پرویز الٰہی کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے
ایک سوال کے جواب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں ٹوٹ ہوئے 90 روز سے اوپر ہوگئے اب پرویز الٰہی کو اپنی سوچ تبدیل کر لینی چاہیے، یہ میری ان کو تجویز ہے۔
پنجاب اسمبلی میں صحافیوں کے آنے پر کیوں پابندی لگائی؟
سطبین خان کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی کا صحافیوں پر پنجاب اسمبلی کے اندر جانے پر پابندی لگانا غلط تھا۔ پرویز الٰہی کو لگا کہ صحافی ہماری خلاف خبریں لگا رہے ہیں تو انہوں نے صحافیوں کے اسمبلی میں داخلے پر پابندی لگا دی، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
حامد میر کا مشکور ہوں
سبطین خان کا کہنا تھا کہ میں حامد میر اور دیگر صحافیوں کا مشکور ہوں جب میں گرفتار ہوا تو انہوں نے میری بے گناہی پر بات کی اور کہا کہ سبطین خان نے کوئی کرپشن نہیں کی ۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ انہوں نے نیب میں جاکر میرا کیس بھی دیکھا، میں میڈیا اور حامد میر کا شکر گزار ہوں۔