کیا عمران خان 2025 میں رہا ہوجائیں گے؟

منگل 31 دسمبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سال 2024 اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ معلوم نہیں نئے سال کا جشن منائیں یا گزرے ہوئے سال کا مواخذہ اور محاسبہ کریں۔ اپنی ذات سے آگے اگر ملک اور دنیا کے بارے میں سوچیں تو یہ سال پاکستان کے لیے ملا جلا رہا۔ وطن عزیز نے اس سال کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ کئی انسانی المیے، سیاسی داؤ پیچ، دہشتگردی کی لہر میں ایک بار پھر اضافہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں تناؤ کے ساتھ ساتھ مہنگائی و بے روزگاری نے غریب عوام کا پیچھا سال 2024 میں بھی نہ چھوڑا۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو سال گزر جانے کے باوجود بھی معصوم فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ نہ رک سکا اور نہ ہی روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔ امریکا میں انتخابات کے بعد ٹرمپ جیسا پاپولسٹ لیڈر صدر منتخب ہوچکا ہے اور دنیا میں استحکام آنے کی بجائے ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔

یہ غیر یقینی صورتحال صرف دنیا کے دوسرے ممالک میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی چھائی ہوئی ہے۔ پاکستان کے حکمران بھی اسی تذبذب کا شکار ہیں کہ ٹرمپ کی صدارت کے بعد امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے۔ حکومت کو یہ وہم بھی ہے کہ ٹرمپ اپنی ناپیش گفتہ  (Unpredictable)طبیعت کے مطابق اگر پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی دباؤ ڈالتا ہے تو اس دباؤ کو کس حد تک resist کیا جاسکتا ہے۔ اور کیا ٹرمپ صرف ٹوئٹس کی حد تک ہی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرے گا یا پھر روایتی سفارتکاری سے ہٹ کر پاکستان پر کوئی دباؤ ڈالے گا۔ ان تمام خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ حکومت جس طرح تاثر دیتی ہے کہ وہ کسی تشویش میں مبتلا نہیں تو یہ غلط ہوگا حکومت بہرحال کسی حد تک متفکر ہے۔ تاہم ٹرمپ کے ابتدائی چند ماہ میں واضح ہوجائے گا کہ اسکی پاکستان بارے پالیسی کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملٹری کورٹس سے سویلینز کو سزائیں

بہرحال 2024 پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے ہنگامہ خیز رہا۔ سال کی ابتدا میں عدلیہ پر سیاسی مقدمات کے حوالے سے دباؤ تھا خصوصاً پی ٹی آئی کے کیسز کے حوالے سے۔ پہلے ہی مہینے میں پی ٹی آئی کےانتخابی نشان کے فیصلے پر سپریم کورٹ بالعموم اور اس کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بالخصوص حدف تنقید رہے۔ اس کے بعد الیکشن سے محض چند دن پہلے ماتحت عدلیہ سے عمران خان کے خلاف یکے بعد دیگرے فیصلے اور سزائیں ملنے سے عمران خان کا الیکشن لڑنے کا راستہ تو بند ہوگیا لیکن ان کی جماعت نے 8 فروری کے انتخابات میں غیرمعمولی کارکردگی دکھائی۔

الیکشن کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں سیاسی طور پر استحکام پیدا ہوجاتا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ 12 جولائی کو سپریم کورٹ سے فل کورٹ کےمخصوص نشستوں کے فیصلے نے عدلیہ اور انتظامیہ و مقننہ کے درمیان ایک خلیج کھڑی کردی اور عدالت کے اس فیصلے پر تاحال عملدرآمد نہ ہوسکا۔ پی ٹی آئی نے اس کے بعد پورا سال وقتاً فوقتاً احتجاج اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیا اور یہ سلسلہ 26 نومبر کو پی ٹی آئی کی فائنل کال کی ناکامی پر جاکر رکا۔ اس دوران حکومت نے بھی کچھ اہم اقدامات کیے جن میں آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کا معاہدہ اور 26 ویں آئینی ترمیم قابل ذکر کارنامے ہیں۔

26ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو جو عدلیہ سےامیدیں تھی کہ وہ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کیخلاف فیصلہ دے کر اور مخصوص نشستوں پر عملدرآمد کرواکے اس حکومت کو گھر بھیج دے گی اور اسطرح پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آجائے گی وہ امید بر نہیں آئی۔ اور امیدوں کے اس تابوت میں آخری کیل 26 نومبر کو فائنل کال کی ناکامی کی صورت میں ٹھک گئی۔ اپنے تمام تر کارڈز اور سیاسی چالیں ناکام ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے مذاکرات کا آخری آپشن آزمانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی طرف سے بھی تھوڑی پس و پیش کے بعد بالآخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی حامی بھر لی گئی۔ وہی عمران خان جو کہ ان سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کے ساتھ ہاتھ ملانا تک گوارا نہیں کرتے تھے بالآخر گھٹنے ٹیکتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہوگئے اور اپنی جماعت کی ایک مذاکراتی ٹیم کا اعلان کردیا۔

مزید پڑھیے: کیا عمران خان کا ملٹری ٹرائل ہوگا؟

حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیموں کی پہلی ملاقات تو بنا کسی نتیجے کے نشستن گفتن برخاستن ہی ثابت ہوئی کیونکہ اس میں پی ٹی آئی ٹیم کے سرکردہ رہنما ہی غیر حاضر تھے۔ تاہم 2  جنوری کے اجلاس میں واضح سمت کا پتا چل جائے گا کہ آیا پی ٹی آئی ان مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے کہ نہیں۔

ابتدا میں پی ٹی آئی کی طرف سے جو بھی مطالبات پیش کیے گئے، چاہے وہ 8 فروری کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کا مینڈیٹ واپس کرنا ہو، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل انکوائری کروانی ہو یا پھر تمام سیاسی کارکنان کی رہائی کا ہو یا 26ویں آئینی ترمیم کو واپس لینے کا ہو، ان مطالبات کے علاوہ پی ٹی آئی 2 جنوری کو اپنی تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی تو اس سے چیزیں واضح ہوجائیں گی۔

ایک بات بہرحال واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے ان تمام تر مطالبات پر عملدرآمد کرنا ممکن نظر آرہا۔ تاہم حکومت جذبہ خیر سگالی کے طور پر کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کرواسکتی ہے۔ لیکن کیا اس کے بعد مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ لگانے سے پہلے عمران خان کی طبیعت یا سائیکالوجی کوبھی جاننا پڑے گا اور عمران خان کے طرز سیاست اور جارحانہ مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ اس میں ایک اہم فریق اسٹیبلشمنٹ ہے جس کی طرف سے ایک واضح مطالبہ کیا گیا تھا کہ جب تک عمران خان 9 مئی پر سرعام معافی نہیں مانگتے بات چیت نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں: تحریک سول نافرمانی 

سیاسی جماعتیں بے شک جتنے بھی مذاکرات کرلیں اس کی منظوری آخر میں اسٹیبلشمنٹ سے ہی ملنی ہے۔ مذاکرات کی منظوری عمران خان کی معافی سے مشروط ہے تو کیا عمران خان معاف مانگیں گے؟ اگر پس پردہ معاملات طے کرکے معافی مانگنی ہوتی تو وہ عمران خان کب کا مانگ چکے ہوتے لیکن مسئلہ وہی سرعام معافی والا ہے۔ عمران خان کو اپنی رہائی کے بدلے اپنے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے پبلکلی معافی مانگنی پڑے گی۔ کیا یہ ممکن ہے؟عمران خان کی طرز سیاست کو مدنظر رکھا جائے تو ان مذاکرات کی کامیابی کے آثار بہت کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ گویا سنہ 2025 میں عمران خان کی رہائی ان کے رویے پر منحصر ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp