گزشتہ برس کو یاد کرنے کا ہر کسی کا اپنا طریقہ ہے۔ کوئی سال کے اہم کارنامے گنوا رہا ہے۔ کوئی اہم فیصلوں پر توجہ مبذول کروا رہا ہے۔ کسی نے گزشتہ برس کی اہم عالمی تبدیلیوں کی فہرست بنائی۔ اور کوئی گزشتہ برس میں ہونے والی معاشی تبدیلیوں کی نشاندہی کروا رہا ہے۔
میں نے بھی ایک فہرست بنائی ہے لیکن یہ نہ گزشتہ برس کے اہم کارناموں کی ہے نہ ہی اس فہرست میں اہم فیصلوں کا ذکر ہے۔ یہ فہرست ان5 بڑے دھوکوں اور فریبوں کی ہے جو اس ملک کی اشرافیہ اور میڈیا نے گزشتہ برس اس ملک کے معصوم عوام کو دیے۔
پاکستان کے عوام کو سب سے بڑا دھوکہ الیکشن کے موقع پر دیا گیا، جب موجودہ حکمران جماعت نے اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگایا ’نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم‘۔ یہ نعرے نہ صرف جلسوں میں لگائے گئے بلکہ ووٹنگ سے ایک دن پہلے پورے ملک کے اخبارات میں اس کی تشہیر بھی کروائی گئی۔
آج نئے سال میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ووٹروں کو شاید اس سے زیادہ بڑا دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ نواز شریف نے چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننا تھا، اس بات کا اظہار بعد میں بہت سے لیگی لیڈران کرام نے کیا لیکن انتخابات میں یہی فریب دیا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف پارٹی، سیاست اور حکومت سے بیزار نظر آئے اور ہر وہ شخص جس کو نواز شریف سے قربت تھی اس کو دھیرے دھیرے سسٹم سے الگ کر دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ اس دھوکے میں ملوث جماعت پر آج کل حکمرانی کی تہمت لگائی جا رہی ہے۔
اس ملک کے معصوم عوام کو دوسرا بڑا دھوکہ یہ دیا گیا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایکسٹنشن لے رہے ہیں۔ یہ غلغلہ چند صحافیوں اور یو ٹیوبرز کے گینگ کی جانب سے شروع ہوا اور پھر یہ پروپیگنڈا اتنا پھیلا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے ہر فیصلے کو ایکسٹنشن کی دوربین سے دیکھا جانے لگا۔
قاضی فائز عیسیٰ جیسے فائق اور اصول پرست آدمی نے نہ ایکسٹنشن لینا تھی نہ ان کا ارادہ تھا۔ لیکن پاکستان کے چند صحافیوں نے اس بات پر پاکستان کے عوام کو خوب دھوکہ دے کر بے انتہا ڈالر کمائے۔ المیہ یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو کر اس سے بڑے بین الاقوامی منصب پر جا چکے ہیں۔ جبکہ ان سے متعلق فریب دینے والے صحافی اور یو ٹیوبرز اب بھی ناسور کی طرح اس معاشرے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
اس ملک کے معصوم عوام کو ملنے والا تیسرا بڑا دھوکہ بین الاقوامی نوعیت کا ہے۔ یہ دھوکہ کئی برسوں سے بلکہ دہائیوں سے چل رہا ہے۔ اس فریب میں مزید رنگ عمران خان اور ان کے دور کی اسٹیبلشمنٹ نے بھرا۔ لوگوں کو باور کروایا گیا کہ افغانی ہمارے بھائی ہیں، ہم ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، مکالمے سے ان مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
جنرل فیض حمید اور عمران خان نے تیس، چالیس ہزار ان جنگجوؤں کو امن کی خاطر ملک میں بسایا لیکن یہ سب سے بڑا دھوکہ ثابت ہوا۔ افغانیوں سے بڑا احسان فراموش اور حرام خور کوئی ثابت نہیں ہوا۔ ہم نے اپنے دروازے ان کے لیے ضیاالحق کے دور میں کھولے۔ ان کو اپنے شہروں میں بسایا۔ ان کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیے لیکن انہوں نے پاکستان کے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا۔ دہشت گردی کی کاروائیاں کیں۔ سرحد پار سے دراندازی کی کوشش کی۔ اس سال یہ واضح ہو گیا کہ یہ دوست نہیں، پاکستان کے دشمن ہیں اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ اب مزید کوئی شخص اس فریب میں ہے تو وہ اس ریاست سے مخلص نہیں ہے۔
چوتھا بڑا دھوکہ یو ٹیوبرز، صحافیوں اور لابنگ فرم والوں نے اس ملک کے عوام کو دیا، وہ یہ تھا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ان عالمی طاقتوں کے سامنے جھکنا پڑے گا، نو مئی کے مجرمان کو معاف کرنا پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے یورپی یونین سے خط لکھوائے گئے، برطانیہ سے کمک حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ امریکا سے کانگریس مینوں کے رقعے ارسال ہوئے۔ ہر موقعے پر یوٹیوبرز اور تحریک انصاف کے صحافیوں نے اسے نادیدہ انقلاب کی نشانی قرار دیا۔ بتایا گیا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ امریکا سے آئے رقعوں سے تھر تھر کانپنے لگے گی۔ برطانیہ اور یورپی یونین کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر گھٹنے ٹیکنے والی ہے۔ اس سب کچھ کا نتیجہ عمران خان کی رہائی کی صورت میں نکلے گا۔ جلد ہی خان کے سر پر پھر ہما بیٹھے گا۔ وہ تخت اقتدار پر براجمان ہوں گے۔ اور پھر راج کرے گی خلق خدا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔
نو مئی کے مجرموں کو ملٹری کورٹس سے سزا ہوئی۔ پہلی کھیپ میں پچیس مجرم پکڑے گئے۔ بین الاقوامی طور پر لابسٹ حرکت میں آئے لیکن کسی نے ان کی رتی بھر پرواہ نہیں کی۔ اس کے بعد ساٹھ اور لوگ بھی سزا وار قرار پائے۔ ادارے نے انصاف کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اس سے بین الااقومی دباؤ والے دھوکے کا دردناک انجام ہوا۔
سب بڑا دھوکہ یو ٹیوبرز اور تحریک انصاف کے صحافیوں نے جو عوام کو دیا، وہ یہ تھا کہ اس سال کے اختتام سے پہلے پہلے عمران خان رہا ہو جائیں گے۔ کالم میں یہ سہولت نہیں کہ ان لوگوں کے تھمبنیل دکھائے جا سکیں یا ان کے ولولہ انگیز کلمات سنوائے جا سکیں لیکن جتنا جھوٹ اس موضوع پر بولا گیا اس کی مثال شاید پہلے کبھی نہیں ملتی۔ عوام کو دھوکہ دینے کے لیے یہ بھی کہانیاں بنائی گئیں کہ حکومت عمران خان کے قدموں میں گر پڑی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ گڑ گڑا، گڑ گڑا کر معافی کی طلبگار ہے۔ ایوان اقتدار خان کا منتظر ہے۔ لوگوں نے دن، تاریخ اور وقت تک اپنے وی لاگز میں بتا دی۔ تحریک انصاف کے معصوم سپورٹرز کو یو ٹیوبرز نے اپنے ڈالروں کی خاطر مسلسل دھوکے میں رکھا۔ ہر وی لاگر نے جانتے بوجھتے انصافیوں کو یہ نوید سنائی کہ خان باہر آ رہا ہے۔ ٹرمپ جیت گیا ہے اب کوئی خان کو جیل میں نہیں رکھ سکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سال ختم ہو رہا ہے۔ گزرتے سال کا سورج ڈوب رہا ہے اور اگلے سال کا سورج طلوع ہو رہا ہے اور عمران خان جیل میں ہی ہیں۔
بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اگر انہوں نے اپنی طرز سیاست کو نہ بدلا تو اگلے کے اختتام پر بھی وہ جیل میں ہی ہوں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔