عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے نیا سال کیسا رہےگا؟

جمعہ 3 جنوری 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پچھلے 3 دنوں میں 3 مختلف نیوز چینلز پر ٹاک شوز میں شریک ہوا۔ ہر جگہ یہی سوال پوچھا جاتا رہا ہے کہ اس نئے سال میں عمران خان پر کیا گزرے گی؟ وہ رہا ہوپائیں گے یا نہیں؟ وہ دوبارہ جلد اقتدار میں آ سکیں گے یا اس کے امکانات نہیں؟ اسی طرح حکومت میں شامل دیگر سیاستدانوں کے حوالے سے بھی سوال پوچھے جا رہے ہیں۔

بعض چینلز نے صاحب معرفت روحانی بزرگوں سے بھی یہی سوالات پوچھے ہیں۔ صوفی بزرگ سیاست میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں، اس لیے وہ بعض سوالات کے جوابات دینے سے گریز کر جاتے ہیں۔ انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی جواب کسی بھی زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے اور پھر اسے پسند کرنے والے طوفان بپا کر دیتے ہیں۔

ہم صحافی البتہ ایسے طوفانوں اور تنقید کے نہ صرف عادی ہوتے ہیں بلکہ کئی بار تو خود پنگا لے لیتے ہیں۔ میں نے بھی سوچا کہ اس حوالے سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے 5 بڑے سیاستدانوں میں جو حقیقی معنوں میں میٹر کرتے ہیں، ان میں عمران خان، میاں نواز شریف، شہباز شریف اور بلاول بھٹو شامل ہیں، اس لیے کہ ملک میں 3 ہی بڑی پارٹیز ہیں، تحریک انصاف، ن لیگ اور پی پی پی، ویسے تو بلاول بھٹو کی جگہ آصف علی زرداری کو شامل کرنا چاہیے، مگر وہ صدر مملکت بن کر 5 سال کے لیے اپنا مستقبل محفوظ کر چکے ہیں، بلاول بھٹو کے حوالے سے البتہ بات ہوسکتی ہے۔ آغاز عمران خان اور ان کے آس پاس کے لوگوں پر بات سے کرتے ہیں۔

عمران خان

عمران خان پچھلے ڈیڑھ برسوں سے جیل میں قید ہیں اور بظاہر ان کی فوری رہائی کے امکانات کم ہی ہیں۔ ان کے خلاف بعض کیسز میں سزائیں سنائی گئیں، مگر ان میں سے زیادہ تراعلیٰ عدالتوں سے ختم ہوگئیں۔ سائفر کیس جس کے بارے میں حکومت کو بہت امیدیں تھیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اس سے بری کر دیا۔

اسی طرح عدت کیس میں وہ اور ان کی اہلیہ بری ہوچکی ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں بھی ان کی سزا معطل ہے، توشہ خانہ 2 اور 199 ملین پاؤنڈز کیس میں انہیں سزا کا خطرہ موجود ہے، البتہ ہائیکورٹ میں وہ سزا قائم رہ سکے یا نہیں؟، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔البتہ عام تاثر ہے کہ خان صاحب کے لیے جیل سے باہر آنا بہت مشکل ہے۔

میری معلومات اور تجزیے کے مطابق عمران خان اس سال جیل سے باہر آسکتے ہیں۔تاہم ایسا بتدریج ہوگا۔عین ممکن ہے کہ پہلے انہیں بنی گالہ میں نظر بند کر دیا جائے اور پھر کچھ وقت کے بعد وہ رہا ہوجائیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کسی سازگار وقت میں انہیں کسی سیٹ پر الیکشن لڑا کر پارلیمنٹ آنے کا موقع بھی مل جائے۔ اس سب کچھ وقت لگ سکتا ہے اور یہ اس پر بھی منحصر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاست کا رخ کس حد تک تبدیل کرتی ہے۔

  عمران خان کا یہ مطالبہ البتہ نہیں مانا جائے گا کہ ان کا 8 فروری کا مینڈیٹ واپس کیا جائے یا الیکشن کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ ان کے مطالبے پر ملک میں نئے الیکشن بھی نہیں ہو سکتے۔ جو کچھ بھی ہوگا وہ 2 سے 3 سال بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا ہونا چاہیے بلکہ میرا کہنا ہے کہ ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔

عمران خان سیاست کی پچ پر جیسی جارحانہ بیٹنگ کرتے رہے ہیں، اس سے انہیں نقصان پہنچا ہے۔ کسی بریک تھرو کے لیے انہیں اب قدرے صبر اور تحمل سے وکٹ پر ٹھہر کر وقت گزارنا ہوگا۔ اپنی اور اپنی پارٹی کے بعض رہنماؤں کی زبان خاموش کرا کر مفاہمت کے راستے کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔

عمران خان کو اب کسی سیاسی اتحاد کی طرف جانا چاہیے۔ پاکستانی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ گرینڈ آلائنس بناتی ہے۔ ’ایم آر ڈی‘ سے ’اے آر ڈی‘ اور پھر ’پی ڈی ایم‘ تک ہمیشہ اپوزیشن نے سیاسی اتحاد بنائے اور انہیں اس کے فوائد بھی ملے۔ عمر ان خان کو بلوچستان میں محمود اچکزئی، اختر مینگل وغیرہ اور سندھ میں جی ڈے اے کو ساتھ ملا کرایک باقاعدہ اتحاد بنانے کی ضرورت ہے، اس میں اگر مولانا فضل الرحمان شامل ہوسکیں تو اور بھی اچھا ہوجائے گا۔ یہ اتحاد عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ کاش یہ بات عمران خان کو سمجھ آسکے۔

26 نومبر کو ڈی چوک والے واقعے کے بعد بشریٰ بی بی کے ممکنہ لیڈرانہ تشخص کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ وہ اس کے بعد میڈیا کے سامنے بھی کھل کر بات نہیں کر پا رہیں۔ تاہم اطلاعات یہی ہیں کہ عمران خان کا اپنی اہلیہ پرمکمل اعتماد موجود ہے، اس میں کوئی ڈینٹ نہیں پڑا۔

بشریٰ بی بی عمران خان کے ساتھ مشاورت میں مصروف عمل ہیں بلکہ کسی بھی قسم کے بیک ڈور مذاکرات میں بھی ان کا کردار ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف میں جو لوگ یہ توقع کر رہے ہیں کہ پارٹی میں عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان وغیرہ کا کردار بڑھے گا تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔

عمران خان اپنی اہلیہ پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ وہی کریں گی جو عمران خان کہیں گے۔ عمران خان کی ہمشرائیں البتہ انہی کی مضبوط شخصیت کی حامل ہیں اور انہیں ڈکٹیٹ کرنا بھی آسان نہیں۔ لیڈر کوئی بھی ہو، وہ قائم مقام اسے ہی بناتا ہے جو اسے ’بلائنڈلی‘ فالو کرے۔ کوئی بھی لیڈر یہ نہیں چاہتا کہ اس فیصلے یا رائے کو کوئی مسترد کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp