پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے باضابطہ طور پر حکومت میں شامل میں ہونے کا فیصلہ نہیں کیا، لیکن یقیناً پارٹی کے اندر یہ باتیں چل رہی ہیں کہ پارٹی کو حکومت میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں، اس حوالے سے حتمی فیصلہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔
وی نیوز سے گفتگو کے دوران رہنما پیپلز پارٹی سینیٹر فرحت اللہ بابر سوال پوچھا گیا کہ شازیہ مری کا بیان آیا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت میں شامل ہوسکتی ہے، پیپلز پارٹی نے گزشتہ کچھ عرصے میں پیپلز پارٹی نے حکومت کے بارے کچھ تحفظات بھی ظاہر کیے ہیں، اس کے باوجود آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی حکومت میں شامل ہوسکتی ہے؟ جواب میں نے انہوں نے کہا کہ سیاست میں سب کچھ ممکن ہے لیکن پیپلز پارٹی کی ابھی تک کی پالیسی یہی ہے کہ وہ حکومت کو پارلیمان کے اندر اسپورٹ کرے گی اور حکومت کا باضابطہ حصہ نہیں بنے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کسی سیاسی جماعت پر پابندی یا غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں فضول ہیں، فرحت اللہ بابر
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اس طرز عمل پر لوگوں نے اعتراض بھی کیا کہ آپ ہی کی پارٹی کے صدر بھی ہیں، آپ ہی کی پارٹی کے دو صوبوں کے گورنرز بھی ہیں، آپ ہی کی پارٹی کے چیئرمین سینیٹ بھی ہیں، یعنی ہماری پارٹی کے پاس کئی آئینی عہدے ہیں، لیکن آئینی عہدے رکھنا اور حکومت میں شامل ہونے میں فرق ہے، ہماری ابھی تک کی پالیسی یہی تھی کہ ہم نے حکومت کا حصہ نہیں بننا، پارلیمنٹ میں رہ کر حکومت کو اسپورٹ کرنا ہے اور اگر کوئی ایسی چیز ہو جو ہم سمجھتے ہیں کہ غلط ہے تو اس پر آواز بھی اٹھائیں گے۔
’پچھلے دنوں شازیہ مری نے ایک ایشو پر آواز اٹھائی تھی کہ مری ٹائم ایجنسی کا جو بل آیا ہے، اس قانون سازی میں ہم سے مشورہ نہیں کیا گیا، جہاں تک حکومت میں باضابطہ شامل ہونے کی بات ہے تو یہ فیصلہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی، میں چونکہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر نہیں ہوں اس لیے اس حوالے سے باخبر نہیں ہوں، یہ پارٹی میں یقیناً بحث چل رہی ہے کہ حکومت میں شامل ہوں یا نہ ہوں، اب تک تو یہی فیصلہ تھا کہ حکومت میں باضابطہ شامل نہیں ہوں گے۔‘
سیاست میں سب ممکن ہے لیکن ہمارا اب تک مؤقف یہی ہے کہ ہم حکومت کو پارلیمان میں سپورٹ کریں گے لیکن حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ فرحت اللہ بابر pic.twitter.com/3AhhoLL69i
— WE News (@WENewsPk) January 7, 2025
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے حوالے سے حکومت پر امریکی دباؤ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ابھی تک امریکا کی جانب سے ایسی کوئی باضابطہ بات نہیں آئی لیکن ظاہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جن عہدیداران کو نامزد کیا ہے، ان کے بیانات آرہے ہیں، یہ کہنا کہ حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا، میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات درست ہے، اگر امریکا سے کوئی باضابطہ بیان آجائے تو پاکستان میں ذمہ دار لوگ یقیناً اس بیان پر غور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات سے ہٹ کہ امریکی عہدیداران کیا بیان دے رہے ہیں، عمران خان کے کیسز چلنے چاہیں، اگر ان کے کیسز میں صرف سیاسی انتقام ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہیے، میں نہیں سمجھتا کہ امریکی عہدیداران کے بیانات سے پاکستان کے ذمے دار ادارے یا ذمے دار لوگ اپنے فیصلے بدلیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی واقعات کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلنے چاہییں: رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر
افغان وزیرخارجہ کی پاکستان کو دھمکی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان پر پاکستان نے جو بمباری کی تھی اس پر سب نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آپ کا پڑوسی ملک ہے اور آپ کو اس سے بات چیت کرنی چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان سے افغانستان پر جو ہوائی حملہ ہوا ہے، یہ کشیدگی کی جانب ایک قدم ہے، اور اگر افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ پاکستان آرہے ہیں تو ان کا سدباب ہوسکتا ہے، اس کا سدباب مذاکرات سے ہی ممکن ہے، اس طرح کے حملے نہیں ہونے چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے روکی جائے۔