پاکستان بھر میں اکثر رات کو سفر کے دوران فٹ پاتھوں، پلوں کے نیچے یا پیڈسٹرین برج پر لوگ سوتے نظرآتے ہیں جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ نشے کے عادی ہوں گے لیکن ان میں سے ہرکوئی ایسا نہیں ہوتا۔
کراچی کی دیگر شاہراہوں کے علاوہ شارع فیصل کے پیڈسٹرین برجز، فلائی اوورز اور فٹ پاتھ بھی ایسے لوگوں سے خالے نہیں ہوتے۔ موسم کوئی بھی ہو انہیں یہیں رہنا پڑتا ہے۔ ان میں سے کچھ دن میں نظر نہیں آتے اور کچھ ہر وقت وہیں منڈلاتے رہتے ہیں لیکن ان سب کی کہانیاں مختلف ہی ہیں۔ ان میں سے ایک سندھ کے شہر نوشہرو فیروز کے جمعہ بخش بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی خواتین مظفرآباد کی سڑکوں پر رکشے کیوں چلا رہی ہیں؟
شارع فیصل پر ایک علاقے نرسری پر موجود پیڈسٹرین برج چڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے بیچ و بیچ جھونپڑی بنا دی ہو اور کپڑوں کی مدد سے اس سرد موسم سے بچنے کی ناکام کوشش کی ہو۔ اس جھونپڑی کے پاس پہنچے تو یہاں 2 افراد موجود تھے جن میں سے ایک اسی وقت نیند سے بیدار ہوئے تھے جبکہ دوسرے صاحب کسی سے فون پر محو گفتگو تھے۔
نیند سے بیدار ہونے والے جمعہ بخش تھے جو ایک سال سے کراچی میں ہی سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی ’رہائشگاہ‘ سے قریب ہی ایک کمپنی کے لیے سیکیورٹی گارڈ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ بقول جمعہ بخش ان کی تنخواہ 25 ہزار روپے ہے جس سے انہیں اپنے بیوی بچوں کا بیٹ پالنا ہوتا ہے جو گاؤں میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کپڑوں اور سڑک کنارے لگے پینافلیکس سے یہ جگہ بنائی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنی تکلیف برداشت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو ان کا کہنا تھا کہ کیا کیا جائے ان کے 6 چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو گاؤں میں تنخواہ کے منتظر رہتے ہیں۔
جمعہ بخش اپنی پوری تنخواہ بیوی بچوں کو بھیج دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رہائش نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک برس سے اسی طرح سڑک پر راتیں گزار رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: غربت کی ماری روپی خود کو اپنے شیرخوار بیٹے کی قاتل کیوں سمجھتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ وہ کھانا سیلانی دسترخوان سے کھالیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری تنخواہ سے زیادہ تو کچھ نہیں ہوتا لیکن اتنا ضرور ہوجاتا ہے کہ گھر کا چولہا جلتا رہے۔
بے گھر خاتون
جمعہ بخش نے تھوڑے ہی فاصلے پر بیٹھی ایک بے گھر خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان سے بھی بات کرلیں وہ بہت تکلیف میں ہیں۔
مزید پڑھیں: سندھ بھر میں سیلاب زدگان کے لیے پکے گھر تعمیر کیے جائیں گے، بلاول بھٹو
ہم نے جب ان خاتون سے بات کی تو انہوں نے اپنا نام گلشن بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر پلاسٹک کی بوتلیں چن چن کر بیچتے ہیں اور ان کا یہی گھر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پل کے اوپر جب سردی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے تو وہ اس پل کے نیچے چلی جاتی ہیں جہاں ان کے شوہر بھی ہوتے ہیں۔













