آزاد کشمیر کی مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کے وزرا نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو خط لکھا ہے جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ریاست میں پارٹی کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی اقرار کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پاور میں آنے کی وجہ سے وہ سیاسی اثرورسوخ کھو چکے ہیں۔
یہ خط ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے بعض اہم رہنما مخلوط حکومت سے الگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں، جبکہ وزرا اس کی مخالفت کررہے ہیں اور انہوں خط کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں عوامی ایکشن کمیٹی کی جدوجہد: کیا روایتی سیاستدانوں کی سیاست خطرے میں ہے؟
اس سے قبل یہ ہوتا تھا کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہو آزاد کشمیر میں بھی اسی پارٹی کی حکومت ہوتی تھی، اور وہ مضبوط بھی ہوتی تھی کیونکہ فنڈز کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا تھا، تاہم اس بار سب اس کے الٹ ہے، کیونکہ مرکز میں شہباز شریف کے وزیراعظم ہونے کے باوجود آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
’آزاد کشمیر اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اراکین کی تعداد 8 ہے‘
آزاد کشمیر اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اراکین کی تعداد 8 ہے، جبکہ آزاد کشمیر کے حلقہ ایل اے 7 بھمبر سے منتخب ہونے والے چوہدری انوارالحق کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہے، جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے منتخب ہوئے تھے تاہم بعد میں علیحدگی اختیار کرلی۔
چوہدری انوارالحق کی سربراہی میں قائم حکومت میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وزرا کی تعداد 5 ہے، جبکہ ایک خاتون مشیر بھی ہیں جن کا عہدہ اور مراعات وزیر کے برابر ہیں۔
حکومت میں شامل مسلم لیگ ن کے وزرا میں کرنل (ر) وقار نور، راجہ محمد صادق، احمد رضا قادری، چوہدری محمد اسماعیل اور سردار الطاف شامل ہیں، جبکہ خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی نثاراں عباسی مشیر حکومت ہیں۔
کابینہ میں شامل ان تمام اراکین اسمبلی نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے نام مشترکہ خط تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کے کہنے پر مخلوط حکومت میں شامل ہوئے۔
’یہ تاثر غلط ہے کہ پارلیمانی پارٹی حکومت گرانا چاہتی ہے‘
خط میں مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پارٹی کے حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود کھل کی حکومت کی مخالفت کی جارہی ہے، اور آئے روز حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پارلیمانی پارٹی حکومت کو گرانا چاہتی ہے، لیکن ہم 8 منتخب اراکین اسمبلی میں سے 6 اراکین اسمبلی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن حکومت میں رہے اور ہم اپنے حلقوں پر توجہ دیتے ہوئے عوام کو صحت، تعلیم اور بجلی کے شعبے میں اعلان کردہ مختلف پیکیجز سے فائدہ پہنچائیں۔ ہمارے حکومت میں رہنے سے اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کو نوکریوں کے مواقع بھی ملیں گے، جس کا پارٹی کو فائدہ ہوگا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن حکومت سے الگ ہوگئی تو پاکستان پیپلزپارٹی کو اس سے خوشی ہوگی، کیونکہ ایسی صورت میں 2026 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے لیے مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرنا زیادہ آسان ہوگا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن داخلی اختلافات کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے نہ کہ وزیروں یا مشیروں کے باعث، جماعت میں چار گروہ ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف چل رہے ہیں، جس سے پارٹی کو عملاً نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ لوگ پارٹی صدر کو اگلے عام انتخابات کے لیے جماعت کو منظم کرنے اور تیاری کرنے میں مدد فراہم نہیں کررہے۔
آپ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ہمیں ملاقات کا وقت دیں، شہباز شریف سے مطالبہ
خط میں کہا گیا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر قیادت اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کرے، پارٹی کو منظم اور مضبوط کرے اور آزاد کشمیر میں ایکشن کمیٹی کے ہاتھوں کھوئے ہوئے سیاسی اثرورسوخ کو دوبارہ حاصل کرے۔
خط میں وزیراعظم پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم ملک میں چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آپ کی مصروفیت کو سمجھتے ہیں، لیکن درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان مسائل پر ہمارے ساتھ گفتگو کے لیے کچھ وقت نکالیں، اس سے پہلے کہ آپ کوئی فیصلہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں آزاد کشمیر: آزادی اظہار رائے کو دبانے کے لیے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہوگئے
اس خط کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔