چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ایک ٹائٹینک ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا تاہم اس کی سمت تبدیل کر کے انصاف کی فراہمی بہتر کی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے اراکین سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ہر جج آزاد ہوتے ہوئے کیس کو اپنے انداز سے بھیجتا ہے، ججز پر تعمیری تنقید ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں کیا بدلا؟
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ گوادر اور کوئٹہ کے دورے پر لاپتہ افراد کے مقدمات نے ہلا کر رکھ دیا ہے، ان مقدمات کی ترجیحی سماعت کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ بلوچی اور سندھی ججوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس کے مطابق انتخابی عذرداریوں کی سماعت کے لیے اسپیشل بینچز بنائے جا چکے ہیں، فوجداری اور ٹیکس کے مقدمات لیے بھی اسپیشل بینچز کام کریں گے، مستحق سائلین کو ضلعی عدالتوں میں مفت وکیل کی سہولت دیں گے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کی نماز اور ایس پی سیکیورٹی سپریم کورٹ کا تبادلہ، معاملہ کیا ہے؟
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اصلاحات کے ضمن میں بہت سے اقدامات کیے جاچکے ہیں، ضلعی عدالتیں ہائیکورٹ کے ماتحت ہیں، جس کی اتھارٹی کا بہت احترام ہے۔
چیف جسٹس نے براہ راست ہائیکورٹ کی اتھارٹی یا ماتحت عدلیہ میں مداخلت کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ایک ٹائٹینک ہے جسے آپ تبدیل نہیں کر سکتے، لیکن اس کی سمت تبدیل کر کے انصاف کی فراہمی بہتر کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس پاکستان کی پالیسی کے ثمرات، سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں کمی
’میرا وژن ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس فائل ہو تو سائل کا ای میل ایڈریس اور واٹس ایپ نمبر لیا جائے اور اسے کیس کی فائلنگ سے لے کر فیصلہ تک تمام آرڈرز ملتے رہیں گے۔‘
چیف جسٹس یحیی آفریدی کے مطابق وہ ارجنٹ درخواستوں کی سماعت کا میکنزم بھی تشکیل دے رہے ہیں،کیس مینجمنٹ بہتر کرنے سے انصاف کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکتی ہے، ہمارے ججز نے مختصر وقت میں 8 ہزار مقدمات نمٹائے ہیں۔
مزید پڑھیں:چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کراچی جیل اصلاحات کے لیے ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان کے چیف جسٹس پاکستان بننے کا فیصلہ اتنی جلدی میں ہوا کہ وہ کچھ سوچ نہ سکے اور حلف برداری کے لیے نیا سوٹ بھی نہیں خرید سکے۔
چیف جسٹس نے صحافیوں کے نمائندہ وفد کو بتایا کہ جیلوں کے دوروں میں قیدیوں نے سال ہا سال مقدمات کے فیصلے نہ ہونے کی شکایت پر وہ بہت شرمندہ ہوئے۔ ’سپریم کورٹ میں روزانہ 2 سے 3 پرانے مقدمات کو اسپیشل بینچز میں سنا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے طویل مقدمہ بازی سے متعلق کیا ریمارکس دیے؟
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کو متحرک کردیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایات پر کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ سب ججز آپس میں بھائی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں ٹھیک ہوں گی، اپنی رائے کسی ساتھی دوست پر مسلط نہیں کرتا، میری رائے ہے مشترکہ دانش کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور علی شاہ کو اہم کمیٹی کی سربراہی سونپ دی
’عدلیہ کے لیے گزشتہ تین چار سال مقدمات کی وجہ سے بڑے سخت تھے، تاہم وہ وقت گزر گیا جب ججز نے ایک دوسرے کے خلاف پوزیشن لی ہوئی تھی، ججز کسی الزام پر جواب نہیں دے سکتے۔‘
چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ کو اے ڈی آر پر کام کرنے پر سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اے ڈی آر کے نظام کے لیے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ریٹائرڈ ججز کی تربیت کی جائے گی، اے ڈی آر کا نظام کا آغاز اسلام آباد سے کیا جائے گا۔