190ملین پاؤنڈ کا فیصلہ قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کا عزم

اتوار 19 جنوری 2025
author image

ردما شاہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو جمعہ کے روز 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا سنائی گئی، جو پاکستان کی احتسابی مہم میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے۔ فیصلہ اڈیالہ جیل میں قائم  عدالت میں جج ناصر جاوید رانا نے سنایا۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو 14 سال قید کی سزا دی گئی جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دونوں پر بالترتیب 10 لاکھ روپے اور 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا، جرمانے کی عدم ادائیگی پر اضافی قید کا حکم دیا گیا۔

عدالت نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 10(a) کے تحت القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کی جائیداد کو وفاقی حکومت کے حق میں ضبط کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے میں کہا گیا، ’دونوں مجرم عدالت کے سامنے موجود ہیں، انہیں اس کیس میں گرفتار کیا جائے اور سزا پوری کرنے کے لیے جیل سپرینٹینڈنٹ کے حوالے کیا جائے‘۔

کیس کا پس منظر

القادر ٹرسٹ کیس ملکی اور عالمی سطح پر قانونی اور سیاسی حوالوں سے انتہائی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق، کیس میں ریاست کے لیے مختص فنڈز اور اثاثوں کی شفافیت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کا انکشاف ہوا ہے۔ الزام ہے کہ یہ ٹرسٹ ایک فرضی ادارہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا تاکہ فنڈز اور زمین کی منتقلی کو ایک غیر شفاف طریقے سے ممکن بنایا جا سکے، جو انسداد بدعنوانی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین سے منسلک 190 ملین کی غیر قانونی دولت ضبط کی، جسے پاکستان واپس کر دیا گیا۔ تاہم، قانونی تقاضے کے مطابق یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے فائدے کے لیے استعمال کی گئی۔ اس معاہدے کے تحت بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کو 240 کنال زمین منتقل کی، جس سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال کے سنگین خدشات پیدا ہوئے۔

قانونی کارروائی اور فیصلہ

اس کیس کی قانونی کارروائی طویل اور تاخیر کا شکار رہی۔ فیصلہ ابتدائی طور پر 23 دسمبر 2023 کو سنایا جانا تھا، تاہم انتظامی وجوہات کے باعث کئی بار موخر کیا گیا۔ بالآخر 17 جنوری 2025 کو احتساب عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنائی۔

عدالت نے القادر ٹرسٹ کے قیام اور اس کے آپریشن میں شفافیت کی عدم موجودگی پر زور دیا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ٹرسٹ کا قیام 190 ملین کی رقم کے تصفیے کے بعد کیا گیا، جس سے اس کے مقصد اور قانونی حیثیت پر سوال اٹھتے ہیں۔

حکومت کا موقف

وفاقی حکومت نے احتساب کو یقینی بنانے اور قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر قانون نذیر تارڑ نے وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین اور بین الاقوامی مالیاتی طریقہ کار، خاص طور پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی اہمیت پر زور دیا۔

وزیرِ قانون نے کہا، ’ 190 ملین کا تصفیہ ریاست کے خزانے میں جمع کرایا جانا تھا۔ حکومت شفافیت کو یقینی بنانے اور عوامی فنڈز کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ عدالتی نظام، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 175 میں بیان کیا گیا ہے، عدلیہ ایک آزاد شعبہ ہے، اور ہم اس کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں‘۔

وزیرِ قانون نے مزید وضاحت کی کہ القادر کیس حکومت کی اُن کوششوں کو ظاہر کرتا ہے جن کا مقصد طاقتور افراد کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہے۔ انہوں نے ملزمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مقدمے کے دوران الزامات کو رد کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکامی دکھائی۔ وزیرِ قانون نے یہ بھی کہا کہ حکومت ایسے کیسز کو جاری رکھے گی تاکہ ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

اہم شواہد اور گواہیاں

کیس میں گواہیوں اور دستاویزی شواہد پر زور دیا گیا جن سے یہ ظاہر ہوا کہ این سی اے کے تصفیے کے فنڈز کی غیر شفاف ہینڈلنگ کی گئی۔ سابق پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک نے گواہی دی کہ دسمبر 2019 میں ایک خفیہ معاہدہ کابینہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جس کی وزراء کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اسی طرح عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے گواہی دی کہ تصفیے کی منظوری بغیر مناسب جانچ پڑتال کے حاصل کی گئی۔

وسیع اثرات

ایک سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کی سزا پاکستان کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ بدعنوانی کے خلاف عدلیہ کے کردار اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے احتساب کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کیس نے حکومتی شفافیت کو مضبوط کرنے اور عوامی اعتماد کی بحالی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔

القادر ٹرسٹ کیس نے اختیارات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کے سنگین مسائل کو بے نقاب کیا ہے۔ عدالت کا فیصلہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنانا احتساب اور شفافیت کے اصولوں پر دوبارہ زور دینے کا اشارہ ہے۔

حکومت نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ایسے کیسز کو جاری رکھتے ہوئے ادارہ جاتی سالمیت کو مضبوط بنایا جائے گا اور قانون کی حکمرانی پر عوامی اعتماد بحال کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp