انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کی حکومت نے وادی سندھ کا رسم الخط ڈی کوڈ کرنے والوں کے لیے 10 لاکھ ڈالرز کا اعلان کیا ہے۔
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے یہ اعلان وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت کے صد سالہ جشن کے موقع پر کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس تہذیب کے بارے میں تحقیق کے ذریعے مزید جانکاری پیدا کرنے کے لیے 2 کروڑ روپے کا بھی اعلان کیا۔
وادی سندھ کی تہذیب اور ‘انڈس اسکرپٹ’ کیا ہے؟
وادی سندھ کی تہذیب 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہوئی۔ یہ کانسی کے دور میں سامنے آنے والی ایک تہذیب تھی جو آج اپنے منصوبہ بندی کے تحت بسائے گئے شہروں، آرٹ اور تجارت کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ گزشتہ صدی کے شروع میں پنجاب کے علاقے ہڑپہ اور سندھ کے علاقے موہنجوداڑو میں اس تہذیب کے آثار دریافت ہوئے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کو کھدائی کے دوران دوسری اشیا کے ساتھ ساتھ لکھائی کے کئی نمونے بھی ملے۔
ان تحریروں کے حروف جانوروں کے نقشوں اور علامتوں پر مشتمل ہیں اور اس رسم الخط کو ’انڈس اسکرپٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کچھ ماہرین کے نزدیک ان علامتوں کی تعداد 400 ہے جبکہ دوسرے محققین ان کی تعداد کئی ہزاروں تک بتاتے ہیں۔ تاہم اس معدوم شدہ رسم الخط کو ایک سو سال کی کوششوں کے بعد بھی اب تک سمجھا نہیں جاسکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:وادی سندھ کی تہذیب کے نشانات کہاں کہاں پائے گئے ہیں؟
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کو ‘انڈس اسکرپٹ’ سے کیا دلچسپی ہے؟
وادی سندھ کی تہذیب کے آثرات کی دریافت سے قبل عام خیال یہ تھا کہ ہندوستانی تہذیب کے معمار آریائی نسل کے لوگ ہیں جو سنسکرت زبان بولتے تھے۔ تاہم 1920 کی دہائی کے اوائل میں آرکیالوجکل سروے آف انڈیا کے سربراہ جان مارشل نے جب 5 ہزار سال پرانی وادی سندھ کی تہذیب دریافت کرنے کا اعلان کیا تو یہ تصور بڑی حد تک رد ہوگیا۔ موجودہ دور میں غالب رائے یہ ہے کہ ہندوستانی کے اصلی باشندے اسی وادی سندھ کے لوگ تھے جنہیں بعد میں وسطی ایشیا سے آریائی حملہ آوروں نے جنوبی ہندوستان کے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔ یوں اس دریافت نے آریائی نسل لوگوں کی حیثیت ہندوستان کے پشتنی باشندے سے بدل کر بیرونی حملہ آور کی کردی۔
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت کے صد سالہ جشن کے موقع پر منعقد ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ انڈیا کی جڑیں آریائی نسل اور ان کی سنسکرت زبان میں پیوست ہیں مگر جان مارشل کی تحقیق نے یہ خیالی دعویٰ بدل کر رکھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جان مرشل کا یہ کہنا کہ وادی سندھ کی تہذیب آریاؤ سے قدیم تھی اور وہاں بولنے والی زبان دراوڑی ہوسکتی ہے، اب مضبوط نظریہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ دراوڑی زبانیں آج تامل ناڈو سمیت جنوبی انڈیا میں بولی جاتی ہیں۔ وادی سندھ کی زبان کا دراوڑی ہونے سے یہ بات ثابت ہوگی کہ انڈیا کے پرانے باشندے سنسکرت بولنے والے آریائی نہیں بلکہ دراوڑی بولنے والے لوگ تھے۔
دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ہندو نیشنلزم کے جس تصور پر یقین رکھتی ہے اس کے مطابق ہندوستان کے اصل باشندے ہند آریائی لوگ تھے اور وہی اصل ہندو تھے۔
یوں مودی مخالف وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے لیے اس بات کو ثابت کرنا سیاسی طور پر بھی اہم ہے کہ انڈیا کی پرانی آبادی دراوڑی بولنے والے لوگ تھے نہ کہ سنسکرت بولنے والے آریائی۔
وزیر اعلیٰ اسٹالن کی دلچسپی بڑھانے کے لیے یہ امر بھی اہم ہے کہ خود ان کی ریاست میں ایسے قدیم آثار کی کھدائی ہوئی ہے جس سے وہاں وادی سندھ کی تہذیب کے متوازی اور ہم عصر دوسری تہذیب کے موجود ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ تامل ناڈو کے علاقے سیواگلائی میں دریافت ہونے والی اشیا 2500 سے 3000 قبل مسیح سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہاں سے بھی لکھائی کے کچھ نمونے ملے ہیں جو کافی حد تک وادی سندھ سے ملنے والی لکھت سے سے مماثلت رکھتے ہیں۔
یوں ‘انڈس اسکرپٹ’ کو ڈی کوڈ کرنے سے تامل ناڈو اور وہاں کی دراوڑی آبادی کے وادی سندھ کی تہذیب سے تعلق کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔

‘انڈس اسکرپٹ’ کو سمجھنا مشکل کیوں؟
تاہم ماہرین کو مختلف وجوہات کی بنا پر آج تک ان نامعلوم تحریروں کا مطلب سمجھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ان کا کوئی باربط اور باقاعدہ معنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ایک اہم وجہ ان تحریروں کے اختصار کا ہے۔ یہ تحریریں زیادہ تر 4 یا 5 علامتوں پر مبنی ہوتی ہیں اور کسی مہر، دیوار یا پتھر کی تختی پر درج ملی ہیں۔ یہ دوسری قدیم تہذیبوں کی تحریروں کی طرح طویل اور باضابطہ نہیں ہیں جس وجہ سے انہیں سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے اور ابھی تک یہ بھی تعین نہیں ہوسکا ہے کہ یہ مختصر تحریریں بائیں سے دائیں طرف لکھی گئی ہیں یا دائیں سے بائیں طرف۔
یہ بھی پڑھیے:گلگت بلتستان میں واقع قدیم آثار، خطے کے شاندار ماضی کے آئینہ دار
ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ اب تک ماہرین کو وادی سندھ کی باقیات سے ایسی تحریر نہیں ملی ہے جو ’انڈس اسکرپٹ‘ کے ساتھ ساتھ کسی دوسری زبان پر بھی مشتمل ہو یا اس رسم الخط کے کسی نمونے کا دوسری زبان میں ترجمہ ہوا ہو۔ ایسی صورتحال میں اس دوسری زبان کے ذریعے ’انڈس اسکرپٹ‘ کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ملتی لیکن وادی سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھنے والی ایسی کوئی ذولسانی تحریر ابھی تک نہیں ملی ہے۔

تاہم وادی سندھ کے آثار کے ابھی تک ایک چھوٹے سے ہی حصہ کی کھدائی ہوئی ہے۔ آئندہ وقتوں میں مزید کھدائی سے ایسا نمونہ ملنے کا امکان موجود ہے کیوں کہ اس وقت اس تہذیب کی میسوپوٹیمیا (موجودہ ایراق)، چین اور فارس کی دوسری تہذیبوں سے تجارتی مراسم موجود تھے۔ وادی سندھ کے ظروف اور اوزار عمان سے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایسی کسی تحریر کا ہونا بعید از قیاس نہیں جس میں دوسری معلوم زبان بھی شامل ہو۔
ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس بات کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا ہے کہ اس خطے میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کون سی زبان ایسی ہے جو وادی سندھ کی معدوم زبان سے نکلی ہو۔ ایسی کسی زبان کا پتہ چلے تو اس کی مدد سے وادی سندھ کی تحریروں کا مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ یونان، روم اور مصر کی تختیوں کو پڑھنا ممکن اس لیے ہوا کیوں کہ ان علاقوں کی قدیم اور جدید زبانوں میں تعلق کا ماہرین کو علم تھا جبکہ وادی سندھ کی زبان کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سنسکرت زبان کی قدیم شکل تھی، دراوڑی زبان کی، یا پھر ان سب سے الگ تھلگ کوئی اور زبان تھی۔
اسی طرح واد سندھ کی تہذیب اور معاشرت کے بارے میں بھی ہمیں زیادہ معلومات نہیں اور کسی بھی زبان کو اس کے سماجی تناظر میں رکھے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ تہذیب اپنا تسلسل اور آثار چھوڑے بغیر اچانک غائب ہوگئی ہو۔ دوسری قدیم تہذیبوں کے برعکس ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وادی سندھ میں بادشاہوں، دیوتاؤں یا علاقوں کے نام کیا تھے۔ اس تہذیب کے بارے میں اساطیری داستانیں موجود ہیں نہ ہی قدیم متون میں اس کا کوئی ذکر ہمیں ملتا ہے۔ اس تہذیب سے متعلق کچھ نام، واقعات یا کرداروں کے بارے میں کہیں ذکر پہلے سے موجود ہوتا تو ان کا تقابل ان تحریروں سے کیا جاسکتا تھا جو ہمیں وہاں ملی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:مصر میں ماہر آثار قدیمہ نے 4 ہزار 300 سال پرانی ممی دریافت کرلی
ایسے میں اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ ان تحریروں میں بھی ان بادشاہوں یا دوسرے کرداروں کا ذکر ہوتا اور یوں ان نامعلوم الفاظ کو ڈی کوڈ کرنے کا سرا ماہرین کے ہاتھ آتا۔ مصر، یونان اور روم سمیت بہت ساری قدیم تہذیبوں کے بارے میں معلومات داستانوں، شاعری یا کتابوں میں دستیاب تھیں۔ ماہرین نے ان کا کھوج وہاں سے ملنے والی تحریروں میں بھی لگانے کی کوشش کی اور انہیں کامیابی ملی۔ یوں وہاں کے ہزاروں سال پرانے رسم الخط کو سمجھنا آسان ہوا۔
یہ تمام وجوہات وہ ہیں جن کی بنا پر وادی سندھ کی یہ بھولی بسری اور پراسرار تحریریں آج بھی ماہرین کے لیے پہیلی بنی ہوئی ہیں اور انہیں سمجھنے کے لیے تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کو ایک ملین ڈالرز کے انعام کا اعلان کرنا پڑا ہے۔