جب 37 سال جیل میں گزارنے والے باچا خان کی آخری رسومات میں بھارتی وزیراعظم نے شرکت کی

پیر 20 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنوری 20 سال 1988 کو پشاور میں سوگ کا سماں تھا، ہر ایک جناح پارک پہنچنے کو بیتاب تھا، جہاں خدائی خدمت گار اور پشتوں رہنما خان عبدالغفار المعروف باچا خان کا جسد خاکی آخری رسومات کے لیے رکھا گیا تھا۔

اس موقع پر موجود صحافی اور سیاسی کارکنوں کے مطابق 20 جنوری کو سربراہ خدائی خدمت گار تحریک باچا خان کے پشاور میں انتقال کی خبر آناً فاناً ملک بھر میں پھیل گئی۔

یہ بھی پڑھیں: مہاتما گاندھی کے نام پر راولپنڈی کی مشہور ’گاندھی گلی‘ کی تاریخ

وہ بتاتے ہیں کہ باچا خان کے جسد خاکی کو دن کے وقت پشاور شہر کے وسط میں واقع جناح پارک لایا گیا تو سیاسی قائدین اور کارکنوں سمیت عام شہری بڑی تعداد میں پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔

بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اچانک پشاور پہنچ گئے

باچا خان کی 37 ویں برسی پر ان کی آخری رسومات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور کے سینئیر صحافی اور بین الاقوامی ادارے سے وابستہ شمیم شاہد بتاتے ہیں کہ اس دن وہ چھٹی پر بونیر میں تھے کہ انہیں باچا خان کی انتقال کی خبر ملی اور وہ اسی وقت واپس پشاور آگئے۔

’باچا خان کے انتقال کے چند گھنٹے بعد ہی ان کے جسد خاکی کو جناح پارک لایا گیا اور جب میں جناح پارک پہنچا وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور دیگر قریبی اضلاع سے بھی لوگ پہنچ رہے تھے، انتہائی سوگ کا سماں تھا۔‘

مزید پڑھیں:بھارت میں گاندھی کی جگہ انوپم کھیر کی تصویر والے نوٹ برآمد، ویڈیو وائرل

اس دن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے شمیم شاہد نے بتایا کہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اسی روز پشاور پہنچ گئے تھے۔

’میں تابوت کے ساتھ ہی کھڑا تھا کہ اتنے میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اپنی بیوی، بیٹی اور دیگر احباب کے ہمراہ جناح پارک پہنچ گئے اور تابوت پر پھول رکھ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔‘

شمیم شاہد کے مطابق، بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی باچا خان کی رحلت کے پہلے روز ہی پاکستان تشریف لائے جبکہ ’سرحدی گاندھی‘ کی آخری رسومات دوسرے روز بھی جاری رہیں۔

مزید پڑھیں:اندرا گاندھی کی بائیوپک فلم ’ایمرجنسی‘ پر کنگنا رناوت کو سرقلم کرنے کی دھمکی کس نے دی؟

’بھارتی وزیراعظم کی سربراہی میں بھارتی وفد کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور اس وقت کے وزیراعلیٰ اور گورنر نے ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ ہی جناح پارک آئے تھے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے دیرینہ کارکن شہباز گل بھی اس دن جناح پارک میں تھے، وہ بتاتے ہیں کہ جونہی انہیں باچا خان کے انتقال کی خبر ملی وہ جناح پارک پہنچ گئے تھے اور افغانستان کے شہر جلال آباد میں ان کی تدفین تک موجود رہے۔

مزید پڑھیں: راہول گاندھی کا درود بھیجتے ہوئے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کا حوالہ، ویڈیو وائرل

’باچا خان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے راجیو گاندھی جب جناح پارک پہنچے تو وہ بھی غمگین تھے اور انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے بھی تعزیت کا اظہار کیا۔

شمیم شاہد بتاتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی مختصر وقت میں وطن واپس چلے گئے تھے تاہم واپسی سے قبل انہوں نے باقاعدہ باچا خان کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے تعزیت بھی کی تھی۔

مزید پڑھیں: ’جو چاہوں وہ پہنوں گی‘، پریانکا گاندھی کا فلسطینی بیگ لینے پر مخالفین کو جواب

شمیم شاہد نے بتایا کہ بیماری کے دوران بھی بھارتی حکومت نے باچا خان کا کافی خیال رکھا۔ اور بھارتی ڈاکٹرز ان کے علاج کے لیے خصوصی طور پر پشاور آئے تھے اور 7 دن تک ان کا علاج بھی کیاتھا۔

جسد خاکی کو 2 دن تک جناح پارک میں کیوں رکھا گیا؟

شہباز گل بتاتے ہیں باچا خان خطے کے عظم لیڈر تھے، جو ہمیشہ پشتونوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار رہے اور 37 سال جیل میں بھی گزارے لیکن کبھی حق بات کہنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔

مزید پڑھیں:نریندر مودی کیمرے کے سامنے رو پڑے، ’راہول گاندھی کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی‘

’باچا خان کے چاہنے والے پورے ملک سے پشاور آرہے تھے جبکہ بھارت سے بھی تعزیتی پیغامات آرہے تھے، بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد کے باعث ان کے جسد خاکی کو 2 دن یعنی 21 جنوری کی شام تک جناح پارک میں ہی رکھا گیا اور وہیں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد 22 جنوری کی صبح افغانستان روانہ کیا گیا۔

صحافی شمیم شاہد بتاتے ہیں کہ نماز جنازہ میں اس وقت کے صدر مملکت ضیا الحق اور وزیراعظم سمیت سیاسی، سماجی اور زندگی ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی تھی۔ ’جنازہ بہت بڑا تھا، اس دن بانی پاکستان کے نام سے منسوب جناح پارک میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔‘

افغانستان روانگی

شمیم شاہد بتاتے ہیں کہ 21 جنوری کو پشاور میں نماز جنازہ کے بعد 22 جنوری کی صبح جسد خاکی کو لے کر تدفین کے لیے افغانستان روانہ ہوئے تھے۔ ’جلوس کی شکل میں لوگ قافلے میں شامل تھے، بس، گاڑیاں، کھلی سوزکی گاڑیاں تک قافلے میں شامل تھی۔ ہر ایک کی کوشش تھی تدفین میں شریک ہو۔’

کارکن شہباز گل نے بتایا کہ کئی گھنٹے مسلسل سفر کے بعد وہ جلال آباد پہنچے تھے، راستے بھر افغانوں نے ان کا استقبال کیا اور تعزیت کا اظہار کرتے رہے، جلال آباد میں آخری مرتبہ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد باچا خان کو سپرد خاک کردیا گیا تھا۔

افغانستان میں تدفین کے حوالے سے شمیم شاہد نے بتایا کہ باچا خان کی اپنی وصیت کے مطابق انہیں تدفین کی غرض سے افغانستان لے جایا گیا تھا۔ ‘افغانستان میں باچا خان کی ذاتی جاگیر ہیں اور وہ پشتون قوم کے درمیان ڈیورنڈ لائن کے سخت خلاف تھے۔‘

جنازے میں شامل صحافیوں کی بس میں دھماکا

شمیم شاہد بتاتے ہیں کہ پشاور سے افغانستان تک سفر پرامن رہا اور بڑی تعداد میں لوگ شامل تھے لیکن جلال آباد افغانستان میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے دوران ایک ناخوشگوار واقع پیش آیا، جس کی وجہ سے سخت پریشانی اور خوف کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔

’صحافی نماز جنازہ اور تدفین ٍکوریج میں مصروف تھے کہ اس دوران انہیں پشاور سے لانے والی بس میں ایک زور دار دھماکا ہوا، جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں تاہم صحافی محفوظ رہے۔‘

شمیم شاہد نے بتایا کہ واپسی پر صحافیوں کو مختلف دوستوں کے ساتھ واپس آنا پڑا، تمام ساتھی صحافیوں کی روانگی کے بعد وہ رات 8 بجے واپس روانہ ہوئے اور رات گئے واپس پشاور پہنچ گئے تھے۔

 باچا خان کون تھے؟

خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں 6 فروری 1890 کو پیدا ہوئے تھے اور 20 جنوری 1988 کو انتقال کر گئے تھے، خان عبد الغفار خان انگریز دور میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کرتے ہوئے پشتونوں کے حقوق کے لیے کھڑے رہے، وہ ہندو رہنما گاندھی کے قریبی ساتھی اور مداح بھی تھے، اسی تعلق کی بنا پر انہیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp