آسٹریلیائی سائنسدانوں نے دنیا کی مہلک مکڑی ’بگ بوائے‘ کو باقاعدہ طور پر الگ نوع قرار دے دیا ہے۔
مسٹر کرسٹینسن نے پہلی بار 2000 کی دہائی کے اوائل میں سڈنی کے شمال میں 105 میل کے فاصلے پر نیو کیسل کے قریب ’بگ بوائے‘ دریافت کی تھی، مسٹر کرسٹینسن کے اعزاز میں اس مکڑی کو سرکاری طور پر ایٹراکس کرسٹینسنی کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپائیڈر مین بریانی، ‘باقی سب تو ٹھیک ہے، مکڑی کے جالے کیسے پکائے’
یہ مکڑی دوسری مکڑیوں سے قدرے مختلف ہے کیوں کہ جہاں یہ انتہائی زہریلے زہر کے لیے مشہور ہے وہی خوش قسمتی سے اینٹی وینم کے کاٹنے پر مؤثر بھی ہیں، ’بگ بوائے‘ کا قد 5 سینٹی میٹر سے 9 سینٹی میٹر تک ہے۔
آسٹریلیائی ریپٹائل پارک میں مکڑیوں کے سابق سربراہ مسٹر کرسٹینسن نے کہا۔ ’کبھی کبھی آپ انہیں کسی گیراج میں یا خواب گاہ میں یا گھر میں کہیں مل سکتے ہیں جہاں وہ رات کے وقت گھومتے رہتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: دُنیا کی سب سے بڑی اور زہریلی ترین مکڑی آپ کی جان کیسے بچاتی ہے؟
آسٹریلوی میوزیم، فلنڈرز یونیورسٹی اور جرمنی کے لیبنز انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے پیر کو تصدیق کی ہے کہ ’بگ بوائے‘ کی فنل ویب کی ایک الگ نسل کے طور پر درجہ بندی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ سڈنی فنل ویب مشرقی آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں اور نومبر سے اپریل تک سب سے زیادہ فعال رہتے ہیں، جب زیادہ مہلک نر رات کے وقت مادہ ساتھی کی تلاش میں نکلتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’اجی سنتی ہو۔۔!‘، بی مکڑی نے خاتون کے کان میں جال بُن دیا
آسٹریلوی میوزیم کے مطابق فنل ویب کے کاٹنے سے منسلک 13 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں، لیکن 1981 میں اینٹی وینم تیار کیے جانے کے بعد سے کوئی بھی موت واقع نہیں ہوئی۔