سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی ابتدائی سماعت پر وکلا کی جانب سے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل اور عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست سمیت 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف مرکزی درخواستوں پر بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی قانون سازی 26ویں آئینی ترمیم کی توہین، عدالت میں چیلنج کریں گے، مولانا فضل الرحمان
26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ نے کی، درخواست گزاروں کی جانب سے26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ کے خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بینچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کرتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق جوڈیشل کمشن نے جن ججز کو آئینی بینچ کے لیے نامزد کیا وہ سب اس بینچ کا حصہ ہیں، ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن جبکہ کیسز کی سماعت کا تعین 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے۔
مزید پٖڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم میں کالا سانپ کسے کہا گیا؟ بلاول بھٹو نے وضاحت کردی
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کمیٹی کے سربراہ جسٹس امین الدین خان ہیں جبکہ وہ خود اور جسٹس محمد علی مظہر اس کے رکن ہیں، وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوز ہیں، اس بینچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔
وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ لگتا ہے آپ پہلے دن سے ہی لڑنےکے موڈ میں ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی کا جواب تھا کہ وہ کسی سے لڑنا نہیں چاہتے، جسٹس امین الدین بولے؛ اگر کوئی فریق بحث کرنے کو تیار نہیں تو عدالت حکم جاری کرے گی۔
مزید پٖڑھیں:لاہور ہائیکورٹ بار نے 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ پر وار قرار دیدیا
جسٹس جمال مندوخیل نے وکلا کو کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ ہچکچاہٹ کا کیوں شکار ہیں، جو اس بینچ کے سامنے بحث نہیں کرنا چاہتا وہ پیچھے بیٹھ جائے، جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ فل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے۔
وکیل فیصل صدیقی کا موقف تھا کہ 26ویں ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کیخلاف ہے، وکیل عزیر بھنڈاری بولے؛ 26ویں ترمیم کی منظوری کے وقت ایوان نامکمل تھا، عدالتی استفسار پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ 26ویں ترمیم کے لیے کل ارکان قومی اسمبلی پر ووٹنگ کے بجائے دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم منظور: ’جمہوریت کا جنازہ کیسے نکلتا ہے پوری قوم دیکھ رہی ہے‘
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دوتہائی پر پورا اترتا تھا، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ گنتی انہوں نے پوری کرہی لی تھی ہم یہ مسئلہ نہیں اٹھا رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی، فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں تھی، خیبرپختونخواہ کی حد تک سینیٹ انتخابات رہتے تھے۔
مزید پڑھیں: توہین عدالت آئینی کمیٹیوں کے خلاف ہونی چاہیے: سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک وکیل کہہ رہا ہے جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ بنائیں، دوسرے وکیل کہہ رہے ہیں فل کورٹ کیلئے ریفر کر دیں، پہلے آپس میں تو فائنل کر لیں کہ کرنا کیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اگر فل کورٹ بن گیا پھر آپ نیا اعتراض کر دیں گے، فل کورٹ میں آپ کہیں گے آئینی بنچ والوں کو الگ کریں،
مزید پڑھیں:بیرسٹر عابد زبیری نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل توفیق آصف کا موقف تھاکہ کچھ دیرپہلے ہی فل کورٹ کے لیے جوڈیشل آرڈر ہوا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ فل کورٹ کے حوالے سے کیا آرڈر ہوا ہے دکھائیں، توفیق آصف نے جواب دیا کہ ابھی فیصلہ سنایا گیا ہے کاپی نہیں ملی۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جوڈیشل آرڈر کمیٹی کے پاس چلا جائے گا، فیصلے میں کیا لکھا ہے دیکھے بغیر کیسے پتا چلے گا، فل کورٹ کا معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہی جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم کرنے والی ہے؟
جماعت اسلامی کی جانب سے سینیئر وکیل عمران شفیق نے عدالت کو بتایا کہ متنازع ترمیم میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی میں سینیارٹی کے اصول کو ختم کیا گیا۔
بیرسٹر صلاح الدین کا موقف تھا کہ اختر مینگل کی درخواست میں ترمیم کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، ارکان اسمبلی ووٹ دینے میں کتنے آزاد تھے یہ بھی مدنظر رکھنا ہے، جسٹس عائشہ ملک بولیں؛ مخصوص نشستوں والے فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں قرارداد منظور
بیرسٹر صلاح الدین نے مزید بتایا کہ درخواست میں ایک نکتہ مخصوص نشستوں کا بھی اٹھایا گیا ہے، ایوان مکمل ہی نہیں تھا تو ترمیم کیسے کر سکتا تھا، شاہد جمیل ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس ترمیم کا اختیار ہے مگر یہ عوام کی نمائندہ ہی نہیں ہے، عوام کے حقیقی نمائندے ہی آئینی ترمیم کا اختیار رکھتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں پہلے الیکشن کیسز کے فیصلوں کا انتظار کریں پھر یہ کیس سنیں، اس طرح تو یہ کیس کافی عرصہ لٹکا رہے گا۔














