خدانخواستہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر حملہ ہو توتینوں کیسز میں تفریق کیوں اور کیسے ہوگی؟ جسٹس جمال مندوخیل

پیر 3 فروری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔

آج ہونے والی سماعت میں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے مؤقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہوسکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’آرمی ایکٹ سویلین کا ٹرائل کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا‘، ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت ملتوی

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکہ کرنے والے اور عام سویلنز میں کوئی فرق نہیں ہے، جس پر خواجہ احمد حسین بولے کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے پھر سوال کیا کہ اکسیویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترمیم بلاوجہ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سویلینز کے خلاف ملٹری ٹرائل کی سماعت میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا تذکرہ کیوں ہوا؟

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اکسیویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے یا نہ ہونے سے کیا ہوگا۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کہ کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں، آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغوا کیا گیا تھا۔

’ملٹری کورٹس کا دروازہ نہیں کھول رہے، صرف دیکھنا ہے اپیل منظور ہوتی ہے یا خارج‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو۔ جسٹس امین الدین بولے، ’ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: آئین سب سے سپریم لا ہے جو سویلینز کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، سپریم کورٹ

خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق 3 کا اطلاق نہیں ہوسکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔

’ایف بی علی کون تھا، آج پتا چلا‘

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا۔ جسٹس مسرت ہلالی بولیں، ’شکر ہے پورا نام تو پتا چلا، ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے‘۔

خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ ایف بی علی پر ملک کے خلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیاالحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: وزارت دفاع نے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا

انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ کورٹ مارشل کرنے والے ضیاالحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے جس کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا، اغوا کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے پوچھا کہ وجوہات کیا تھیں، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ اس کے لیے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے۔ وکیل خواجہ احمد حسین بولے کہ احتجاج کرنا جرم نہیں مگر املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ ملزمان آزاد نہیں ہوں گے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک مسئلہ بنیادی حقوق اور دوسرا قومی سلامتی ہے، عدالت نے دونوں میں توازن پیدا کرنا ہو تو بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، عدالتی فیصلہ برقرار رہا تو کسی ملزم یا دہشتگرد کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔

انسداد دہشتگری کا قانون موجود ہے جس میں گواہان کے تحفظ سمیت تمام شقیں ہیں، عدالت کسی بھی صورت سویلنز کو شفاف ٹرائل سے متصادم نظام کے حوالے نہیں کرسکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ سندھ میں گواہان کے تحفظ کا الگ سے قانون بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہوگئے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانے کا حکمنامہ واپس

دوران سماعت، آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس  جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکمنامہ واپس لے لیا۔  سابق چیف جسٹس نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔ سپری کورٹ نے 9 دسمبر 2024 کو ان پر جرمانہ عائد کیا تھا۔ عدالت نے جسٹس جواد ایس خواجہ کے نظرثانی درخواست واپس لینے پر جرمانہ ختم کردیا گیا۔

بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل آئین کو تباہ کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے، خواجہ حارث نے ایف بی علی کیس کا جو مطلب نکالا اس پر حیرانی ہوئی، ایف بی علی کیس نہیں کہتا کہ بنیادی آئینی حقوق کا اطلاق آرمی ایکٹ کی دفعات پر نہیں ہوتا۔

’ایک جیسی ایف آئی آر ہوئی مگر کچھ لوگوں کو فوج کے حوالے کیا گیا‘

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایف بی علی کیس اس کے بالکل برعکس بات کررہا ہے، یوں بھی آئین میں آرٹیکل 175 (3) آچکا ہے، یہ آرٹیکل 1987 میں آیا، اس کے بعد ایگزیکٹو کورٹ کی گنجائش ہی نہیں، آرٹیکل 175 (3) کے بعد ملٹری کورٹس والی تفریق پیدا کی ہی نہیں جاسکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک جیسی ایف آئی آر ہے مگر کچھ لوگوں کو فوج کے حوالے کردیا گیا۔ جسٹس امین الدین بولے کہ وہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا یہ معاملہ بالکل اس عدالت کے سامنے موجود ہے، کسٹڈی دینے کے آرڈرز اور کمانڈنگ آفیسر کی درخواست اس عدالت کے سامنے موجود ہے۔

بعدازاں، عدالت نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp