آئین سب سے سپریم لا ہے جو سویلینز کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، سپریم کورٹ

جمعرات 30 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل (یکم فروری) تک ملتوی کردی گئی ہے۔ آج ہونے والی سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کیے جبکہ حکومت پنجاب، حکومت بلوچستان، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور شہدا فاؤنڈیشن کے وکلا نے خواجہ حارث کے دلائل کو اپنا لیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ گزشتہ روز خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔ اس حوالے سے ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئی تھیں۔

’اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا‘

آج سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے، میں نے یہ بات عام تاثر میں کی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: وزارت دفاع نے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ غلط ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، کہنا چاہ رہا تھا کہ فیصلے کو 2 افراد کسی محفل میں کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔

خواجہ حارث نے نے دلائل دیے کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر آج کی سماعت کا دلچسپ احوال

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلینز کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔

’جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟‘

خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ اکسیویں ترمیم فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کو ٹرائل کہاں ہوا تھا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید کہا کہ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 کورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے، کہاں سے اور کیسے آئے، کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا، ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔

’بلوچستان اس معاملے پر متاثرہ فریق کیسے ہے؟‘

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے وکیل سکندر بشیر مہمند عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کس حیثیت میں یہاں آئے ہیں، حکومت بلوچستان اس معاملے پر متاثرہ فریق کیسے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک ہونے والے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب کرلیں

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بس آکر کہہ دیا ہم بھی دلائل اپنا رہے ہیں، آپ کو مطمئن کرنا ہوگا کہ آپ کو بطور فریق کیوں سنا جائے، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کے ہوتے ہوئے آپ بلوچستان حکومت کے پرائیویٹ وکیل کیسے بنے، وقفے کے بعد پہلے دلائل دیکر مطمئن کریں۔ بعد ازاں، کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

کتنے فریقین نے وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل اپنائے؟

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیسے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی پوچھا کہ کوئی رولز آف بزنس یا قانون بتا دیں کہ نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے۔

ایڈووکیٹ سکندر بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جن میں نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بعد ازاں، پنجاب اور بلوچستان حکومت، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور شہدا فاؤنڈیشن نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔

یہ بھی پڑھیں: اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ جسٹس جمال مندوخیل

خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی اپیل واپس لے چکے ہیں۔ جس کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے عدالت کے روبرو دلائل پیش کیے کہ فوجی عدالت سے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ کی گنجائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ رٹ دائر کرنے کی گنجائش بنیادی حقوق صلب کرنے کا جواز نہیں بن سکتی، رٹ سننا یا نہ سننا ہائیکورٹ کی صوابدید ہے۔

’سول ملزم اور فورسز سے وابستہ ملزم میں فرق نہیں ہونا چاہیے‘

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سول ملزم اور فورسز سے وابستہ ملزم میں فرق نہیں ہونا چاہیے، ایک سویلین کو آئین بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، آئین سب سے سپریم لا ہے۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ بالکل دونوں ملزمان میں واضح فرق ہونا چاہیے، مسلح افواج میں جانے والے نے خود کو آرمی ایکٹ کے تابع کرنے کی رضامندی دی ہوتی ہے، ایک عام شہری کا معاملہ اس سے الگ ہوتا ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں آئین کا آرٹیکل 8 (3) پڑھنا چاہوں گا، یہاں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کو آرٹیکل 8 میں بنیادی حقوق سے مستثنیٰ کیا گیا، آرٹیکل 8 (3) میں آرمڈ فورسز کے ممبرز کا ذکر ہے، آئین سازوں نے آرمڈ فورسز کے ’ممبرز‘ کا ذکر کرکے سب واضح کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ

وکیل خواجہ احمد حسین دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ واضح ہو گیا کہ اس قانون کا اطلاق عام شہریوں پر نہیں ہے، اگر عام شہریوں کے لیے گنجائش چھوڑنا ہوتی تو الفاظ مختلف ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پھر آرٹیکل 8 (3) میں ممبرز آف آرمڈ فورسز کے بجائے صرف آرمڈ فورسز ہوتا۔

خواجہ احمد حسین بولے کہ جی بالکل! ممبرز کا ذکر آنے سے طے ہو گیا عام شہریوں کا وہاں ٹرائل نہیں ہوگا، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عام شہریوں کا اندر گٹھ جوڑ ہو تو ٹرائل ہوسکتا ہے، گٹھ جوڑ کے الفاظ بھی آئین یا قانون میں نہیں صرف ایک فیصلے میں ہیں۔

بعدازاں، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp