بنگلہ دیش کی حکومت نے سابق وزیراعظم کے آبائی گھر کی توڑ پھوڑ اور نذر آتش کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے حسینہ واجد کے اشتعال انگیز ریمارکس کا نتیجہ ہے قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈھاکا: مشتعل مظاہرین نے مفرور وزیراعظم حسینہ واجد کا آبائی گھر گرا دیا
جمعرات کو پریس ونگ کے چیف ایڈوائزر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہندوستان فرار ہوجانے والی شیخ حسینہ کے جولائی انقلاب کے حوالے سے اشتعال انگیز ریمارکس نے لوگوں کو بھڑکا دیا۔
چیف ایڈوائزر نے کہا کہ گزشتہ 6 مہینوں سے تاریخی رہائش گاہ پر کوئی حملہ یا تباہی کا واقعہ نہیں ہوا اور شیخ حسینہ کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا جس سے جولائی انقلاب کے دوران اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو تکلیف پہنچی۔
بیان میں کہا گیا کہ حسینہ واجد نے اپنے ریمارکس کے ذریعے لوگوں کی شہادت کے بارے میں تضحیک آمیز اور بے بنیاد دعوے کرکے ان کی بے عزتی کی اور دوسرا انقلاب کے نتیجے میں ملک سے فرار ہونے کے باوجود ان کا پرانا نامناسب لہجہ اور دھمکانے والا انداز برقرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں عدم استحکام پیدا کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شیخ حسینہ کے بار بار ریمارکس نے جولائی کے قتل عام کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں تازہ ترین پرتشدد ردعمل سامنے آیا ہے۔
عبوری حکومت نے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ جان و مال کے تحفظ کے لیے ہائی الرٹ ہے۔
مزید پڑھیے: حسینہ واجد کی بھانجی و برطانیہ کی فنانشل سروسز کی وزیر ٹیولپ صدیق نے استعفیٰ کیوں دیا؟
بیان میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتحال پر قابو پانے اور مزید بڑھنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
چیف ایڈوائزر نے کہا کہ شیخ حسینہ جو ایک مفرور ہیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں ایسے بیانات دینے سے گریز کریں جو بدامنی کو ہوا دیں۔
انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین بنگلہ دیش میں عدم استحکام کو فروغ دینے کے لیے استعمال نہ ہو اور شیخ حسینہ کو مزید ریمارکس جاری کرنے سے روکا جائے۔
مزید پڑھیں: انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے شیخ حسینہ واجد سمیت 10 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
بیان میں کہا گیا کہ حکومت جولائی کے قتل عام میں ملوث افراد کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور قانونی عمل پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔
چیف ایڈوائزر نے کہا کہ حکومت اس بات کا جائزہ لے گی کہ اشتعال انگیز سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔