امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ کے اختتام پر غزہ کی پٹی امریکا کے حوالے کر دی جائے گی، امریکا کے اس خیال کا مطلب فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنا ہوگا، اس کے لیے کسی امریکی فوجی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:عرب وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس، فلسطینیوں کی بے دخلی کا ’ٹرمپ منصوبہ‘ مسترد
جمعرات کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل پریئر بریک فاسٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری انتظامیہ امریکا کو ایک بار پھر عظیم ملک بنائے گی، امریکی ہمیشہ ایک قوم بن کر رہے ہیں اور اس قوم کو مزید مضبوط بنائیں گے۔
غزہ میں انسانی انخلا سے متعلق اپنے منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہمارا مقصد غزہ کی پٹی کی تعمیر نو ہے اور اس کے لیے ہمیں کسی فوج کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، اسرائیلی جنگ کا اختتام ہو گا تو اسرائیل غزہ کی پٹی کو امریکا کے حوالے کر دے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی فلسطینیوں کی نقل مکانی سے متعلق ٹرمپ کے منصوبے کی مذمت
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ امریکا غزہ میں انسانی انخلا کی آڑ میں غزہ کی پٹی پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس حوالے سے وہ یہاں سے فلسطینی شہریوں کے انخلا کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، ان کے اس بیان پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے گروپوں اور عرب رہنماؤں نے شدید مذمت کی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل ‘ پر لکھا تھا کہ وہ اپنے منصوبے کے تحت غزہ کے باشندوں کو نئے اور جدید گھروں کے ساتھ زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت گھروں میں آباد کر چکے ہوتے۔ امریکا غزہ انکلیو کی تعمیر نو کی کوششوں میں حصہ دار ہوگا۔
ٹروتھ سوشل پر لکھی گئی ان کی پوسٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ آیا فلسطینی علاقے کے 20 لاکھ باشندوں کو غزہ میں واپسی لا کر آباد کیا جائے گا یا نہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقے سے آبادیوں کی جبری منتقلی کی کوششوں پر سختی سے پابندی عائد ہے۔
مزید پڑھیں:صدر ٹرمپ کا جنگ سے تباہ حال غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں، ترجمان وائٹ ہاؤس
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کارولین لیویٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر پیدا ہونے والے عالمی ردعمل کے بعد کہا کہ امریکی منصوبے میں غزہ سے کسی بھی طرح کی نقل مکانی عارضی ہوگی۔ اسی روز اپنے بیان میں وزیر خارجہ روبیو نے بھی کہا کہ غزہ کے باشندوں کو عارضی مدت کے لیے علاقہ چھوڑنے کی تجویز ہے کیوں کہ ملبہ صاف کیا جانا ہے اور تعمیر نو کی جانی ہے ۔
امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے یہ بیانات ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی تبصروں کے مکمل برعکس تھے۔ ادھر منگل کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم اس حوالے سے اسرائیل کے ساتھ بھی کام کریں گے۔
نیو یارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے ان کے سینیئر معاونین کو بھی حیرت میں ڈال دیا کیونکہ ان سے اس منصوبے کے بارے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی کے ہلٹن ہوٹل میں اپنے خطاب میں غزہ کی صورت حال پر انتہائی مختصر بات کی، جس میں امریکا کی جانب سے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے کے اپنے بیان کردہ منصوبوں کا ذکر بھی نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں:بہت جلد غزہ پر قبضہ کرلیں گے اور ہم اس کے مالک ہونگے، ڈونلڈ ٹرمپ کا نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دعویٰ
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہوئے خود کو ’امن ساز‘ قرار دے دیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان 19 جنوری کو نافذ العمل ہونے والی جنگ بندی کا سہرا مشرق وسطیٰ اور اپنی جانب موڑ دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ‘ان کی انتظامیہ ایک امن ساز اور متحد کرنے والی انتظامیہ کے طور پر سامنے آئے گی، ان کہنا تھا کہ جب میں نے اپنی پہلی مدت کے بعد عہدہ چھوڑا تو ان کے دور میں کوئی جنگ نہیں تھی۔ جب میں واپس اقتدار میں آیا تو ہمارے سامنے روس اور یوکرین کی جنگ تھی جبکہ مشرق وسطیٰ میں ایک جنگ شروع ہو چکی تھی۔
امریکی صدر نے سامعین میں بیٹھے اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کو کھڑا ہونے کا کہتے ہوئے کہا کہ ’ہم آپ کو اپنے دلوں میں رکھتے ہیں‘۔ صدر کی حیثیت سے میں اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک باقی ماندہ تمام یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔
دوسری دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 4 طویل سیاہ سالوں کے بعد ان تقریبات میں واپس آنا اچھا لگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی بنیاد 4 سادہ الفاظ پر مشتمل ہے کہ ’ہم خدا پر بھروسا کرتے ہیں‘۔امریکا کا سنہری دور باضابطہ طور پر شروع ہو چکا ہے‘۔ ’امید بڑھ رہی ہے، امید واپس آ رہی ہے‘.