’اس بار سپریم کورٹ سب کو سن کر فیصلہ کرے گی لیکن 3 رکنی بینچ وہی رہے گا‘

بدھ 19 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 19 اپریل بدھ ایک اہم دن تھا اور عدالت عظمیٰ ایک جانب حکمنامے تو دوسری طرف وضاحتیں جاری کرتی رہی۔

وزارت دفاع کی جانب سے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست جو منگل کے روز دائر ہوئی تھی  جو بدھ کے روز سماعت کے لیے مقرر کی گئی۔

پنجاب الیکشن التوا کے کیس کی کارروائی جب 27 مارچ کو شروع ہوئی تو 3 رکنی بینچ جس کی تشکیل پر سپریم کورٹ کے اندر اور باہر سے بہت سارے اعتراضات اٹھائے گئے اس بینچ نے الیکشن التوا مقدمے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے وکیل کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ بعد میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں نے الیکشن التوا مقدمے کے فیصلے پر سوالات اٹھا دیے جن پر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا ردعمل دیا۔

بدھ کے روز ایک طرف سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نجی یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غلط فیصلہ غلط ہی ہوتا ہے چاہے وہ اکثریتی فیصلہ ہی کیوں نہ ہو۔

سپریم کورٹ کی سیاسی جماعتوں کا موقف سننے پر آمادگی

وزارت دفاع کی جانب سے ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کرانے کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سیاسی جماعتوں کا موقف سننے پر آمادگی ظاہر کی جب کہ اس سے قبل پنجاب الیکشن التوا مقدمے میں اسی بینچ کا فوکس الیکشن کے انتظامات رہے اور وہ الیکشن کمیشن، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کا موقف سنتے رہے۔

الیکشن التوا کیس کی ماضی کی سماعتوں میں سیاسی جماعتوں کے وکلا کو بات کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا تھا پھر پی ڈی ایم کی جانب سے موقف سامنے آیا کہ وہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔ آج کی سماعت میں ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ سیاسی جماعتوں کو اپنا موقف سامنے رکھنے کی اجازت دی گئی اور گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم او کی جانب سے عدالت کو دی گئی بریفننگ پر بھی بینچ کے موقف میں نرمی نظر آئی۔

بدھ کے روز ہونے والی سماعت کی تیسری اہم پیش رفت وہ وضاحت تھی کہ سپریم کورٹ کا آڈٹ ہر سال ہوتا ہے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے جو خبر اخبارات اور دیگر میڈیا میں شائع ہوئی کہ 10 سال سے سپریم کورٹ کا آڈٹ نہیں ہوا وہ خبر غلط تھی۔

بدھ کے روز کی عدالتی کارروائی میں سب سے پہلے جس بات پر بحث ہوئی وہ فنانس ڈویژن کی جانب جمع کرایا گیا جواب تھا جس میں کہا گیا کہ انتخابات کے انعقاد کے لئے سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے کی بجائے معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کے لیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟

بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فنانس ڈویژن جو بتا رہا ہے اس کے نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو فنکشنز کو پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرنے کی مثال نہیں ملتی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کے لیے بھیجا اور قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔ اس پر جسٹس منیب اختر بولے کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟

بینچ کی جانب سے ایک آبزرویشن یہ بھی دی گئی کہ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے اور مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔ جب آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کرسکتی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے پھر ہمارے پاس آئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ حکومت کو پیغام پہنچا دیں کہ اس فیصلے کے نتائج ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد 4 اپریل کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں یہ کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ پر آئینی ذمہ داری ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر بحث ہوئی۔ اسی دوران چیف جسٹس نے کہا کہ 27 مارچ کو الیکشن التوا مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی لیکن بعد میں ہمیں حساب کتاب میں الجھا دیا گیا کہ دو تین ہے یا تین چار۔

چیف جسٹس کا ڈجی ملٹری آپریشنز اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کا ذکر

چیف جسٹس نے ڈی جی ملٹری آپریشنز اور ڈی جی آئی ایس آئی سے اپنی ملاقات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ انہوں نے ملٹری آپریشنز کے بارے میں ہمیں تفصیلات بتائیں لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ ہم فیصلہ کر چکے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔

یہاں چیف جسٹس نے ڈی جی ملٹری آپریشنز کی جانب سے ان کے جواب کا ذکر کیا کہ الگ الگ وقت پر انتخابات سے مسلح افواج کو تھوڑے عرصے میں دوبار تعینات کرنا پڑے گا۔ اس نکتے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس مشکل کو سمجھ سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں میں جمود ٹوٹ چکا ہے اور اب وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں جس کو چیف جسٹس نے خوش آئند قرار دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار ہوں تو عدالت رعایت دے سکتی ہے۔

پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کے حوالے سے وزارت دفاع کے ساتھ ساتھ ایک شہری نے شاہ خاور ایڈووکیٹ کے ذریعے بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ بہتر یہی ہے کہ چاروں صوبوں اور وفاق کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں کیونکہ الگ الگ وقت پر انتخابات سے سیاسی جماعتوں کو مسابقتی عمل میں یکساں مواقع میسر نہیں آئیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا یہ نقطہ 27 مارچ کو کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل سیاسی جماعتوں میں بات چیت کے حوالے سے مثبت بات کر رہے ہیں اس پر ساری سیاسی جماعتوں کو نوٹس کرتے ہوئے سماعت جمعرات کے روز 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

انتخابات کے معاملے پر کوئی رائے نہیں دو ں گا: جسٹس فائز عیسیٰ

دوسری طرف ایک نجی یونیورسٹی کی تقریب میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے انتخابات کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں انتخابات کے معاملے میں کوئی رائے نہیں دوں گا۔ میں رائے بنانے سے پہلے دوسروں کو سننا پسند کرتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ آرٹیکل ان لوگوں کے لیے شامل کیا گیا جو بالکل مجبور اور لاچار ہوتے ہیں جیسا کہ بیگار کاٹنے والے افراد یا خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس اختیار کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ازخود اختیارات کے بے جا استعمال پر تنقید کی۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پنجاب الیکشن التوا بھی ایک ازخود نوٹس کے تحت شروع ہوا جس کے قابل سماعت ہونے پر سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے منفی رائے کا اظہار کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp