اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پی ایف یو جے اور اینکرز ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست پر گزشتہ منگل کی ابتدائی سماعت کے بعد معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس
عدالت کی جانب سے جاری کردہ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پیکا قانون میں استعمال ہونے والے الفاظ اور نمبرنگ درخواست گزاروں کے حقوق پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔
IHC’s Order Dated 11.02.2025 in W.P. No. 534 of 2025 by Asadullah on Scribd
حکم نامے کے مطابق درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ پیکا قانون آزادیٔ اظہار اورآزادی صحافت کو متاثر کرتا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 19(A) کی خلاف ورزی ہے۔
مزید پڑھیں: فیک نیوز پھیلانے پر مسلم لیگ ن کی اپنی رکن اسمبلی پیکا ایکٹ کی زد میں آگئیں
وکلا نے عدالت کو بتایا کہ پیکا قانون کے تحت شکایات اور انکا حل کرنے کا پروسیجر آئین کے آرٹیکل 10-اے کے متصادم ہے، اس قانون میں استعمال کیے گئے الفاظ مبہم ہیں جو قانونی مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔
حکم نامے کے مطابق وکلا نے عدالت کو بتایا کہ پیکا قانون سے حکومت کو لامحدود اختیارات ملے اس قانون کا اصل مقصد آزادیٔ اظہار اور صحافت پر پابندی لگانا ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی وزیرقانون نے پیکا ترمیمی بل پر نظرثانی کا عندیہ دے دیا
’وکلا کے مطابق پیکا قانون کے تحت بنائے گئے ادارے، حکام اور عدالتیں حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہیں، عدالت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرتی ہے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر پی ایف یو جے کی جانب سے عمران شفیق ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم اتنی جلد بازی میں کی گئی کہ شقوں کے نمبر بھی درست درج نہیں کیے گئے۔
مزید پڑھیں: صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع ’پیکا ایکٹ‘ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی
’قانون میں اس قدر غلطیاں ہیں کہ درخواست دہندہ کی دو تعریفیں کر دی گئی ہیں، دونوں تعریفیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔‘
وکیل عمران شفیق کے مطابق پیکا قانون کے کیس سننے کے لیے قائم کیا جانے والا ٹریبیونل حکومت خود قائم کرے گی، حالانکہ کوئی بھی ٹریبونل متعلقہ ہائی کورٹ سے مشاورت کے بغیر نہیں بنایا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست دائر
’قانون یہ ہے کہ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ہو یا ٹریبونل وہ آزاد اور خودمختار ہو گا، پیکا قانون کے تحت یہ سب کچھ حکومت کے ماتحت ہو گا، اتھارٹی اور ٹریبونل کے ارکان کو کسی بھی وقت عہدے سے برخاست کرنا حکومت کی صوابدید قرار دیا گیا ہے۔‘
عمران شفیق کے مطابق فیک نیوز کی تعریف پیکا ایکٹ میں بہت ہی مبہم رکھی گئی ہے، واٹس ایپ گروپ میں کوئی فرد مذاقاً بھی لکھ دے کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے تو اس کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کرکے اپنے مؤقف سے روگردانی کی، مولانا فضل الرحمان
درخواست گزار وکلا کا موقف تھا کہ قانون میں مبہم تعریف کے ساتھ 3 سال قید کی سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانہ رکھا گیا ہے، جو ناانصافی ہے لہذا ترمیمی ایکٹ پر عمل درآمد روکا جائے۔