وفاقی وزیرقانون نے پیکا ترمیمی بل پر نظرثانی کا عندیہ دے دیا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ سے ایک صھافی نے سوال کیا کہ پیکا ترمیمی بل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب میں وزیرقانون نے بتایا کہ یہ بل وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات اور وزارت آئی ٹی سے متعلقہ ہے، وہ سارے باقی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ابھی بھی بات چیت کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فیک نیوز پھیلانے پر مسلم لیگ ن کی اپنی رکن اسمبلی پیکا ایکٹ کی زد میں آگئیں
وزیرقانون نے کہا کہ قانون کوئی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا، یہ پارلیمان کا اختیار ہے کہ اس میں تبدیلیاں آتی رہیں، اگر سارے اسٹیک ہولڈرز متفق ہوئے تو اس ایکٹ پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال 23 جنوری کو قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی کی منظوری تھی ،صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو کالا قانون، آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی تھیں، تاہم صدر مملکت نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد یہ بل قانون بن گیا تھا۔
پیکا ایکٹ سے متعلق اسٹیک ہولڈرز سے بات چل رہی ہے، کوئی بھی قانون مستقل نہیں ہوتا، پارلیمان کا اختیار ہے کہ قانون میں تبدیلی کرے، اگر سارے کسی بات پر متفق ہوئے تو اسے دیکھا جا سکتا ہے، اعظم نذیر تارڑ وفاقی وزیر قانون!!!! pic.twitter.com/0kpbarKPfJ
— Nadir Baloch (@BalochNadir5) February 10, 2025
غیر قانونی مواد کی ممانعت
بل کے مطابق ایسا مواد جو نظریہ پاکستان کے خلاف اور لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے، یا عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، ایسا مواد غیر قانونی ہے، قانونی تجارت یا شہری زنگی میں خلل ڈالنا بھی ممنوع ہوگا۔ نفرت انگیز، توہین آمیز، فرقہ واریت ابھارنے اور فحاشی پر مبنی کانٹینٹ کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع ’پیکا ایکٹ‘ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی
بل کے مطابق اراکین پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں اور دہشتگردی کو حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا۔ چیئرمن سینیٹ، سپیکر قوم اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔ کلعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جھوٹی خبر پھیلانے کی سزا کیا ہوگی؟
ہر وہ شخص جو جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلائے گا جو جھوٹیا فیک ہوں یا جس سے خوف و حراس پھیلے یا عوام میں افرا تفری اور انتشار پیدا ہو اس شخص کو 3سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ کیا جا سکے گا یا یہ دونوں سزائیں دی جا سکیں گی،بل کے تحت قائم کی جانے والی ریگولیٹری اتھارٹی، تحقیقاتی ایجنسی، ٹربیونل اور کمپلینٹ کونسل کیا کام کریں گے؟
اس بل کے تحت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، اسلام آباد سمیت صوبائی دارالحکومتوں میں بھی اس اتھارٹی کے دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
ریگولیٹری اتھارٹی کے اختیارات،فنکشنز اور ذمہ داریاں؟
یہ اتھارٹی لوگوں کی آن لائن سیفٹی یقینی بنائے گی، ملک میں غیر قانونی اور جارحانہ مواد کو ریگولیٹ کرے گی، اس کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر، رینیو، معطل یا ان کی رجسٹریشن ختم کرنے کا اختیار ہوگا، اس بل پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو وقتی طور پر یا مستقل بلاک کرسکے گی، سوشل میڈیا کانٹینٹ سے متعلق ہدایات دینا اور معیار مقرر کرنا بھی اس اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔اس بل کے تحت دی گئی درخواستوں پر کارروائی بھی اس اتھارٹی کے اختیارات اور ذمہ داریوں میں شامل ہے، خلاف ورزی کرنے کی صورت میں جرمانے تجویز کرنا بھی اس اتھارٹی کا کام ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کرکے اپنے مؤقف سے روگردانی کی، مولانا فضل الرحمان
غیر قانونی مواد بلاک کرنے کے لیے یہ اتھارٹی متعلقہ اتھارٹیز کو ہدایات دے سکے گی کانٹینٹ بلاک کرنے کی مدت 30 دن ہوسکتی اس میں 30 دن کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ آن لائن سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیز کے ساتھ بھی کام کرسکے گی اور انفارمیشن شیئرنگ کرسکے گی یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔
جھوٹی خبر یا انفارمیشن پر اتھارٹی کو درخواست دینے کا مقرر وقت کیا ہے؟
غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے24 گھنٹے سے پہلے درخواست دینا ہوگی۔
ریگولیٹری اتھارٹی میں کون کون شامل ہوگا؟
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور 8 ممبران پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا اور چیئرمن پی ٹی اے ایکس آفیشل ممبران ہوں گے۔ چیئرمین اور دیگر 5ممبران کی تعیناتی وفاقی حکومت کرے گی۔ ان کی مدت5 سال کے لیے ہوگی اور ایکسٹینشن نہیں دی جا سکے گی۔ 10 سالوں پر محیط تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجینئر، ایڈووکیٹ، سوشل میڈیا پروفیشنل، آئی ٹی انٹرپرینور اتھارٹی کے ممبران میں شامل ہوں گے، اتھارٹی کے مالی سال کے آخر میں سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، پالیسی میٹرز پر وفاقی حکومت اتھارٹی کو ہدایت جاری کر سکے گی۔
اتھارٹی کو استثنیٰ حاصل ہوگا؟
بل کے مطابق نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی، حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔
سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل کیا ہے؟
سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل ایک چیئرمین اور4 ممبران پر مشتمل ہوگا جہاں عام لوگوں، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی اور ان درخواستوں کو پراسس کیا جائے گا چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی3 سال کے لیے ہوگی جس میں وفاقی حکومت 3 سال کی مزید توسیع دینے کی مجاز ہوگی۔ چیئرمین اور ممبران کے لیے بیچلر ڈگری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون اور سوشل میڈیا پالیسی یا متعلقہ فیلڈز میں15 سالہ تجربہ درکار ہوگا۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کیا ہے؟
وفاقی حکومت اس بل کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹربیونل میں درخواست دے سکے گا۔ جبکہ ٹربیونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60 دن میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا۔ ٹربیونل تمام کیسز کے فیصلے90 دن کے اندر کرے گا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل چیئرمین اور 2ممبران پر مشتمل ہوگا، چیئرمین ایسا شخص ہوگا جو ہائی کورٹ کا جج رہا ہو، یا ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے کوالیفائیڈ ہو۔ ایک ممبر ایک ایسا شخص ہوگا جو کسی بھی پریس کلب کا ممبر ہو، جرنلزم میں بیچلر ڈگری کا سند یافتہ ہو، اور12 سال پر محیط پیشہ ورانہ تجربہ رکھتا ہو۔ دوسرا ممبر سافٹ ویئر انجینئر ہوگا اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہوگا، چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی3 سال کے لیے کی جائے گی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام
اس بل کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بل کے تحت انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کرے گی اس ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا اس ونگ میں کام کرنیوالے تمام اہلکار، کیسز، انکوائریز، تحقیقات، اثاثے، پراپرٹیز، بجٹ، حقوق اور استحقاق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں ٹرانسفر کر دیے جائیں گے وفاقی حکومت اس قانون کے تحت ایک یا ایک سے زیادہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمز بنا سکے گی جو تحقیقات کے لیے کسی بھی انویسٹی گیشن ایجنسی سے معاونت لے سکیں گی۔