پشاور یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔ سکیورٹی سپروائزر ثقلین بنگش کے قتل کے بعد یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین گزشتہ 43 روز سے قلم چھوڑ ہڑتال پر تھے۔ سکیورٹی سپروائزر کے قتل پر اساتذہ اور ملازمین کی جانب سے احتجاج اور کلاسسز کا بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا۔ احتجاج کے باعث 53 شعبوں کے 17 ہزار طلبہ پڑھائی سے محروم رہے۔
جامعہ پشاور کے اساتذہ نے مطالبات کی منظوری کے بعد 18 اپریل کو ہڑتال کی کال واپس لے لی تھی۔ سیکرٹری اعلیٰ تعلیم انیلا محفوظ درانی کی ثالثی سے معاملات طے پائے تھے۔ ہڑتال سے طلبا کے قیمتی وقت سمیت قومی وسائل کا ضیاع بھی ہو رہا تھا۔
چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلام چوہدری کی ہدایت پر تشکیل دی گئی خصوصی کمیٹی میں سیکرٹری اعلیٰ تعلیم انیلا محفوظ درانی، سیکرٹری ایڈمنسٹریشن منظور خان، سابق کمشنر پشاور ریاض محسود اور ضلعی انتظامیہ کے نمائندے شامل تھے۔
کمیٹی کا مینڈیٹ جامعہ پشاور میں ہڑتال پر جانے والے اساتذہ کی نمائندہ تنظیم اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرکے مذاکرات کرواکر ہڑتال ختم کرانا تھا۔
پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات چیف سیکرٹری کے کانفرنس روم میں منعقد ہوئے۔ فریقین نے معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے احتجاج کی کال واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
کمیٹی نے اپنی سفارشات فریقین کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ کی شکل میں گورنر کو پیش کیں۔ گورنر خیبرپختونخوا غلام علی اور چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری نے قانون کے مطابق جلد حقیقی مطالبات کی منظوری اور پورے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ گورنر نے ہڑتال ختم کرنے پر ارکان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
گورنر نے کہا کہ پشاور یونیورسٹی کا شمار ملک کی قدیم اور بڑی جامعات میں کیا جاتا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم سے تعلیمی ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے دونوں فریقین کو یکسو ہونا چاہیے۔
پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین قلم چھوڑ ہڑتال پر کیوں تھے؟
رواں برس مارچ کے اوائل میں سیکیورٹی سپروائزر ثقلین بنگش پشاور یونیورسٹی کمپیس میں ہاسٹل کے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے کہ ان کے ہمراہ موجودہ گارڈ نے انہیں مبینہ طور پر فائرنگ کرکے شدید زخمی کر دیا جس کے بعد وہ ہسپتال میں دم توڑ گئے۔
یونیورسٹی کمپیس میں دو ہفتوں کے دوران اس نوعیت کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ تھا اس سے پہلے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے لیکچرار بشیر احمد کو قتل کیا تھا۔
واقعہ کے خلاف پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن، کلاس فور اور دیگر ملازمین سراپا احتجاج تھے اور یونیورسٹی میں گارڈز کی فائرنگ کے واقعات کو سیکیورٹی ناکامی قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ ایسے واقعات سے اساتذہ، ملازمین اور طلبہ میں بے چینی اور خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے اس واقعہ کی شفاف تحقیقات، نجی سیکیورٹی کمپنی گارڈز کے نفسیاتی جائزے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ذمہ داروں خلاف کارروائی اور وائس چانسلر کی برطرفی کے مطالبات پر احتجاج شروع کیا گیا تھا۔ پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن اور دیگر ملازمین 43 دن سے سراپا احتجاج تھے۔