سپریم کورٹ آف پاکستان نے عید کی تعطیلات کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر بینچ نمبر 1 کے مقدمات کی فہرست منسوخ کر دی، جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمرعطا بندیال کی ناسازی طبع بتائی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 26 اپریل کو شروع ہونے والے عدالتی ہفتے میں، بینچ نمبر ون میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک دوسری اہم تبدیلی بھی رونما ہوئی کہ بینچ نمبر ٹو کی فہرست مقدمات بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ بینچ ٹو جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل تھا۔ بینچ ٹو کے تمام مقدمات کی سماعت کے لیے ایک نیا بینچ تشکیل دیدیا گیا جس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس امین الدین خان شامل ہوں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں جاری سیاسی کشمکش کی بنیاد پر تمام نگاہیں کسی بھی طرح کے فیصلے کے لیے عدالت عظمٰی پر مرکوز ہوں، عدالتی کارروائی کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی بھی معنی خیز سمجھی جاتی ہے، اس کے طرح طرح کے مطالب نکالے جاتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسٰی چیمبر ورک تک محدود
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی عید کی تعطیلات سے قبل 2 ہفتے سے چیمبر ورک تک محدود ہیں، وہ بینچ میں مقدمات کی سماعت نہیں کر رہے ہیں۔
27 اپریل کو ملک میں عام انتخابات ایک وقت میں کرائے جانے پر سماعت
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے 20 اپریل بروز جمعرات کو سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور ایک شہری کاشف خان کی جانب سے ملک بھر میں ایک ہی وقت میں عام انتخابات کرانے کی درخواست پر سماعت کی تھی جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور مل جل کر اس آئینی مسئلے کا حل نکالیں گے۔
اس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے عندیہ دیا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں کسی متفقہ حل پر اتفاقِ رائے کر لیتی ہیں تو سپریم کورٹ اس معاملے میں لچک کا مظاہرہ کرے گی۔ بصورت دیگر 14مئی کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم نامہ موجود ہے جس پر ہر صورت عمل درآمد ہوگا۔ اگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدآمد نہیں کرتی تو ممکنہ طور پر اسے توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کے لفظ کی مناسب حکام سے تبدیلی
آج وفاقی کابینہ اپنے اجلاس میں وفاقی حکومت کے لفظ کی جگہ مناسب حکام کی لفظ کی منظوری دے گی جس کی ممکنہ توجیح توہین عدالت کی کارروائی سے بچنا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی وفاقی حکومت کو توہینِ عدالت کی کارروائی سے محفوظ رکھ سکے گی؟
پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات کے لیے تیار
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سوائے تحریک انصاف کے تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سپریم کورٹ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ عدالتِ عظمٰی کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور سیاسی جماعتیں مل جل کر ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 20 اپریل کی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے عدالت کے سامنے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے عدالتی فیصلے کی روشنی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
آڈیو لیکس
سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کی 20 اپریل کے عدالتی حکمنامے کے بعد عید کی تعطیلات کے دنوں میں کچھ آڈیولیکس منظر عام پر آئیں جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کے قریبی رشتے داروں اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی گفتگو شامل ہے جن سے سوشل میڈیا پر ایک تاثر پیدا ہوا ہے کہ شاید عدالت عظمٰی کا 3رکنی بینچ ایک خاص سیاسی جماعت کے حق میں جھکاوٗ رکھتا ہے۔ اس تناظر میں ایک بار پھر سے فل کورٹ کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
اس سے قبل عدالت عظمٰی کے ججز کے درمیان آئینی تشریحات کے معاملے میں بہت سا اختلاف دیکھنے میں آیا۔ سپریم کورٹ کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں بینچوں اور فہرست مقدمات کی منسوخی کو آج کے دن کے لیے خاص بتایا گیا ہے لیکن کل عام انتخابات کے حوالے سے اہم سماعت اگر کسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو یہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں یا پاکستان تحریک انصاف میں سے کسی ایک دھڑے کے لیے خوشگوار ہوگی اور دوسرے کے لیے ناگوار۔
یہاں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے 3 بینچز مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ بینچ ٹو، جسٹس اعجاز الااحسن جسٹس امین الدین خان، بینچ3 ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید جبکہ بینچ4، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی پر مشتمل ہے۔