بلوچستان حکومت کا ایک سال: وزرا کے بلند و بانگ دعوے، تجزیہ کاروں نے پول کھول دیا

اتوار 9 مارچ 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی پر مشتمل بلوچستان میں مخلوط حکومت کے دور اقتدار کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے گزشتہ برس 2 مارچ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ کابینہ کی تشکیل کے لیے انہوں نے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لے لیا، جس کے بعد 20 اپریل کو 14 اراکین پر مشتمل کابینہ وجود میں آئی اور صوبے میں نئے حکومتی دور کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں بلوچستان حکومت نے صوبے سے متعلق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا بیان مسترد کردیا

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک سال کے دوران بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اور سرکار نے تعلیم کے شعبے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے بجٹ میں مجموعی طور پر 300 فیصد کا اضافہ کیا۔

حکومت کے مطابق شعبہ تعلیم میں اصلاحات لاتے ہوئے 10 لاکھ بچوں کو مختلف تعلیمی اداروں میں حکومتی خرچ پر اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا گیا جس کے تحت مختلف فیزز میں بچوں کو اسکالر شپ فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بے نظیر اسکالر شپ پروگرام کے ذریعے بلوچستان کے طلبہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنے کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔

حکومت کے مطابق مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے 400 بچوں کو اسلام اباد کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حکومتی خرچ پر اسکالر شپس دی گئی ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے یوتھ اسکالر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 30 ہزار نوجوانوں کو تربیت دینے کا فیصلہ کیا ہے جس پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ اور اس کے ذریعے بچوں کو یورپی ممالک میں بھیجنے کے پروگرام پر بھی کام جاری ہے۔

تعلیمی شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے غیر فعال تعلیمی اداروں کو فعال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کے تحت 100 سے زیادہ بند اسکولوں کو فعال کیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ اسکولوں کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سینکڑوں اساتذہ کو برطرف کیا جاچکا ہے۔ حکومت نے صوبے میں امتحانات کے دوران نقل کی روک تھام کے لیے بھی سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔

بات کی جائے اگر صحت کی شعبے کی تو حکومت کا دعویٰ ہے کہ صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے محکمہ کے بجٹ میں 129 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ 10 سرکاری اسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا اعلان بھی کیا گیا، حکومت نے اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات دینے کا وعدہ بھی عوام سے کر رکھا ہے۔

زراعت کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کے زرعی یوٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے سے متعلق پروگرام کا اعلان کیا گیا۔ اس پروگرام کے لیے 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی جس میں مجموعی طور پر 30 ہزار زرعی ٹروپمنٹس کو سولر پر منتقل کیا جانا تھا، تاہم اس پروگرام پر مختلف مراحل میں عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

حکومت نے سال 2022 کے سیلاب میں منہدم ہو جانے والے مکانات اور شاہراہوں کی تعمیر کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، اس پروگرام کے تحت اب تک 250 مکانات مکمل طور پر تعمیر کیے جا چکے ہیں تاہم قومی شاہراہوں کی بہتری پر کام سست روی کا شکار ہے۔

صوبائی وزرا کے مطابق اس ایک سال کے دوران حکومت نے اپنی بھرپور صلاحیت کے ساتھ کام کرتے ہوئے عوام کو ہرممکن سہولت دینے کے لیے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو شروع کیا لیکن اس کے برعکس اپوزیشن اراکین اور تجزیہ نگاروں کا ماننا کچھ اور ہے۔

حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی، اپوزیشن

اپوزیشن اراکین کا مؤقف ہے کہ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، جبکہ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس ایک سال کے دوران صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال حکومتی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت کے دور اقتدار میں لسانی بنیادوں پر قتل کے واقعات میں تین گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جبکہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ سرفراز بگٹی کی حکومت میں آئے روز قومی شاہراہوں پر کالعدم تنظیموں کی جانب سے ناکہ بندی کرکے لوگوں کو نشانہ بنانے کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے میں شرپسند عناصر کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال حکومت کی غیرسنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حکومت کے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت کا دور بلوچستان کے بدترین ادوار میں سے ایک ہے کیونکہ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے کام نہ ہونے کے برابر کر رکھے ہیں، حکومت تعلیم اور صحت میں بہتری کے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہے لیکن اس ایک سال کے دوران حکومت نے ایک بڑی یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ شروع نہیں کیا اس کے علاوہ صوبے میں موجود یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنخواہوں کا مسئلہ بھی آئے روز سر اٹھاتا رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں بلوچستان حکومت کا نوجوان پائلٹس کی ٹریننگ کے لیے انقلابی اقدام

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھا سکی، صوبے میں بڑھتی بے روزگاری بھی حکومتی کارکردگی کا منہ نوچ رہی ہے، نئے روزگار کے مواقع تو اپنی جگہ سرحدی تجارت کے ذریعے اپنا روزگار پیدا کرنے والے نوجوانوں کو بھی سرحد بند کرکے روزگار چھینا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کے بڑے فائنلز، کس کا پلڑا بھاری رہا؟

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی