اسپیکر راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے ارکان کی آرا اور جذبات کی روشنی میں لکھے خط میں واضح کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان کے محافظ کے طور پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں ۔
ججوں کے تبصروں پر عوامی نمائندوں کا اضطراب
میں یہ خط سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلوں، ججوں کے تبصروں پر عوامی نمائندوں کے اضطراب اور تشویش کے اظہار کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں۔ قومی اسمبلی شدت سے محسوس کرتی ہے کہ حالیہ فیصلے قومی اسمبلی کے دو بنیادی آئینی فرائض میں مداخلت ہے۔
اسپیکر نے تحریر کیا ہے کہ آپ کی توجہ آئین کے آرٹیکل 73 کی طرف مبذول کراتا ہوں۔ آرٹیکل 73 کے تحت مالیاتی بل کی منظوری قومی اسمبلی کا خاص اختیار ہے۔
آئین کے آرٹیکل 79سے 85 تک کے تحت قومی خزانے سے اخراجات کی منظوری منتخب نمائندوں کا اختیار ہے۔
آئین کی ان واضح شقوں اور اختیارات کی تقسیم کے تناظر میں قومی اسمبلی کی تشویش اور بے چینی سے آپ کو آگاہ کررہا ہوں۔
14 اور 19 اپریل کو تین رُکنی بینچ نے اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب جاری کرنے کے احکام دیے۔ قومی اسمبلی کی طرف سے رقم دینے کی سخت ممانعت کے باوجود یہ حکم جاری کیے گئے۔
اسپیکر کے خط میں قومی اسمبلی کی منظور کردہ قرار دادوں ، مجلس قائمہ خزانہ کے فیصلے کے حوالے بھی شامل ہیں۔
تین رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے استحقاق کو مکمل نظرانداز کیا
اسپیکر نے خط میں لکھا ہے کہ 10 اپریل کو قومی اسمبلی نے الیکشن کمشن کو 21 ارب جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا،17 اپریل کو مجلس قائمہ خزانہ نے وزارت خزانہ کو پہلے قومی اسمبلی سے منظوری لینے کی ہدایت کی۔ اس اقدام کا مقصد بلا اجازت اخراجات کی آئینی خلاف ورزی سے بچنا تھا۔
اسپیکر کے مطابق دیگر اخراجات کے عنوان سے 21 ارب کی ضمنی گرانٹ کی قومی اسمبلی سے بعدازاں منظوری کو مسترد کر دیا گیا۔ افسوس ہے کہ 3 رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے آئینی عمل اور استحقاق کو مکمل نظرانداز کیا۔
خط میں درج ہے کہ ظاہر ہوتا ہے کہ 3 رکنی بینچ نے عجلت میں حکم دیا۔ 3 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا عام معمول سے ہٹ کر حکم دیا۔ رقم جاری ہوجانے کے بعد غالب امکان یہی ہے کہ قومی اسمبلی اسے مسترد کردے گی۔
3 رُکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی
اسپیکر کے مطابق بلا اجازت رقم جاری کرنے کے وفاقی حکومت کے لیے سنگین اثرات ہوں گے۔ 3 رُکنی بینچ نے رقم جاری نہ ہونے پر وفاقی حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
اسپیکر نے لکھا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ قومی اسمبلی کو تابع بنانے کی کوشش ہے۔ یہ اقدام آئینی طریقہ کار کے خاتمے کے مترادف ہے۔
اسپیکر کے مطابق واضح ہے کہ یہ حکم ناقابل قبول اور قومی اسمبلی کے اختیار، استحقاق اور دائرہ کار کی توہین ہے۔ اس لیے کہ عدلیہ کو تشریح کا اختیار ہے، آئین ’ری۔رائٹ‘ کرنے کا نہیں اور نہ ہی عدلیہ کو پارلیمنٹ کی خود مختاری کم کرنے کا اختیار ہے۔
خط کے مطابق جج صاحبان نے آئین کے دفاع، تحفظ اور اسے قائم رکھنے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ قومی اسمبلی کی پختہ رائے ہے کہ خزانے سے متعلق فیصلہ سازی صرف قومی اسمبلی کا اختیار ہے۔
قومی اسمبلی دستوری طریقہ کار سے انحراف کی مزاحمت کرے گی۔
اسپیکر نے لکھا ہے کہ آئین اور عوام کی طرف سے ملنے والے اختیار و استحقاق کا قومی اسمبلی بھرپور دفاع کرے گی۔ قومی اسمبلی دستوری طریقہ کار سے انحراف یا متعین مطلوبہ عمل سے روگردانی کی مزاحمت کرے گی۔
اسپیکر کے مطابق قومی اسمبلی کاموقف ہے کہ ازخود نوٹس کے تحت کارروائی 3 کے مقابلے میں 4 ججوں نے مسترد کردی ہے۔ ، 14 اور 19 اپریل کے احکامات قانونی نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 189 اور 190 کی رو سے اُن پر عمل درآمد درکار نہیں۔
اسپیکر کے مطابق رقم دینے کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب وزیر اعظم اور حکومت پر قومی اسمبلی کا عدم اعتماد نہیں۔4، 14 اور 19 اپریل کے 3 رُکنی بینچ کے احکامات 4 ججوں کی اکثریت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔
اختیارات کی دستوری تقسیم پر پختہ یقین رکھتے ہیں
خط کے متن کے مطابق اسپیکر نے لکھا ہے کہ اختیارات کی دستوری تقسیم پر پختہ یقین رکھتے ہیں، عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر ادارہ دوسرے کے اختیار کا احترام کرے۔
ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازع قومی مفاد کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لئے رقم رکھی جائے گی۔
اسپیکر نے لکھا ہے کہ آئین کے نفاذ کے پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمان کے اختیار میں کئی بار مداخلت دیکھ چکے ہیں۔ افسوسناک بات ہے کہ زیادہ تر اعلیٰ عدلیہ نے غیر جمہوری مداخلت کی توثیق کی۔
عدلیہ نے اپنی بندوقوں کا رُخ سیاستدانوں کی طرف ہی رکھا
اسپیکر نے لکھا ہے پاکستان کے عوام نے خون اور قربانیاں دے کر ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی اور ہمیشہ فتح مند ہوئے۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ افسوس ہے کہ زیادہ تر عدلیہ نے اپنی بندوقوں کا رُخ سیاستدانوں کی طرف ہی رکھا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمان کی جدوجہد سے ہی آزادی حاصل ہوئی۔ آرٹیکل 2 اے کی رو سے قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے۔قرار داد مقاصد بلا شک وشبہ پارلیمان کی بالادستی کا اعلان کرتی ہے۔
قرارداد مقاصد بابائے قوم قائداعظم کے وژن کا مظہر ہے۔ قرارداد مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے۔ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔عدلیہ اور انتظامیہ قومی اسمبلی کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیاجائے۔
اسپیکر کے خط کے مطابق قومی اسمبلی کے مسترد کرنے کے باوجود انتظامیہ کو رقم جاری کرنے کا کہنا ٹرائی کاٹومی کے اصول کے منافی ہے۔ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیاجائے۔
چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان انفرادی اور اجتماعی طورپر پارلیمنٹ کے دائرے میں مداخلت نہ کریں۔ آئین کی سربلندی، تحفظ ،دفاع اور جمہوری اقدار کے لیے ہم سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔
دستوری تقسیم کے مطابق تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کو یقینی بنانا چاہیے۔ آئینی دائرے میں رہنے ہی سے ریاست کو اداروں کے درمیان تنازعات سے بچایا جاسکتا ہے۔
اسپیکر کے خط کی نقول اٹارنی جنرل پاکستان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔