واہ کینٹ سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت خاتون فرحت انور نے اپنی زندگی ایک ایسے مقصد کے لیے وقف کر دی ہے جو نہ صرف ان کے لیے بلکہ سینکڑوں خصوصی بچوں کے لیے بھی امید کی کرن بن گیا ہے۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی بہادر خاتون کی جنہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی معذور بہن اور بھائیوں کی تکالیف کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا۔ ان مشکلات نے ان کے دل میں خصوصی بچوں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار کیا، اور آج وہ ایک ایسا ادارہ چلا رہی ہیں جہاں معذور بچوں کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ خودمختار زندگی گزار سکیں۔
مشکل راستے، مضبوط ارادے
فرحت انور کا سفر آسان نہیں تھا۔ والد کی وفات کے بعد گھر کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں اور خصوصی بچوں کی ضروریات کو سمجھنا اور پورا کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تمام تر توانائیاں اس کام میں لگا دیں کہ ایسے بچوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں انہیں محض ہمدردی نہیں بلکہ عملی مدد بھی ملے۔
خصوصی بچوں کے لیے تربیتی مرکز
انہوں نے واہ کینٹ میں ینگ مسلم اسکول سسٹم کے نام سے تربیتی ادارہ قائم کیا، جہاں ذہنی و جسمانی معذوری کا شکار بچوں کو تعلیم، فنی مہارتیں اور روزمرہ زندگی کے کام سکھائے جاتے ہیں۔ یہاں خصوصی بچوں کو دستکاری، ڈرائنگ، کھانے پکانے، اور دیگر عملی مہارتوں کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
والد کی میراث ایک مشن میں بدل گئی
فرحت انور کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کا جذبہ انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا۔ وہ چاہتی ہیں کہ خصوصی بچے بھی عام بچوں کی طرح عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزاریں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر انہیں صحیح رہنمائی اور مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بھی کامیاب اور خودمختار زندگی گزار سکتے ہیں۔
علاقے کے لیے روشنی کی کرن
یہ ادارہ نہ صرف خصوصی بچوں اور ان کے والدین کے لیے ایک سہارا ہے بلکہ پورے علاقے کے لیے بھی ایک مثال بھی بن چکا ہے۔ ان کی کوششوں سے کئی بچے آج اپنے ہنر کے ذریعے اپنی روزی کما رہے ہیں اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔