نیب نے خیبر پختونخوا کے دورافتادہ اور پسماندہ ضلع کوہستان میں سرکاری فنڈز میں خردبرد کی شکایات پر انکوائری شروع کر دی ہے، جس میں نیب کو 40 ارب روپے کی خردبرد کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
نیب ذرائع نے انکوائری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد سے اجازت ملنے کے بعد پشاور سے ایک ٹیم کوہستان سے سرکاری دستاویزات اور شواہد اکٹھے کرنے کے بعد واپس آچکی ہے، ابتدائی شواہد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خردبرد کا بڑا اسکینڈل ہے۔
سرکاری بینک سے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے خردبرد
نیب خیبر پختونخوا نے مالی اسکینڈل پر تاحال کوئی مؤقف نہیں دیا ہے اور رابطہ کرنے پر بھی بات کرنے سے بھی گریز کیا، تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیب کے ایک افسر نے انکوائری کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیب کو کچھ خفیہ اطلاعات ملی تھیں کہ کوہستان میں سرکاری فنڈز میں خردبرد کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے، ابتدائی شکایات کا جائزہ لینے کے بعد ہیڈ کوارٹر سے انکوائری کی اجازت ملی۔
نیب افسر کے مطابق، اب تک کی پیش رفت کے مطابق خرد برد کے معاملات داسو میں واقع سرکاری بینک کے اکاؤنٹس سے جڑے ہیں، جن میں چیکس بھی استعمال کیے گئے ہیں۔
مشکوک اکاؤنٹس، ڈمپر کے نام تعمیراتی کمپنی
نیب ذرائع نے بتایا کہ مبینہ خردبرد کا معاملہ 5 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے، انہوں نے بتایا کہ اس انتہائی پیچیدہ نوعیت کے معاملے نے نیب کے تفتیش کاروں کو بھی الجھا رکھا ہے۔
کوہستان سے دستیاب دستاویزات کے مطابق ایک شخص کے نام پر اکاؤنٹس ہیں جن میں سرکاری اکاؤنٹس سے رقم منتقل کی گئی، مزید تفتیش سے پتا چلا کہ وہ شخص ڈمپرڈرائیور ہے اور اس کے نام پر ایک جعلی تعمیراتی کمپنی بھی رجسٹرڈ ہے، جس کے ذریعے خردبرد کی جا رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری اکاؤنٹس سے چیکس کے ذریعے رقوم خردبرد کی گئی ہیں جس میں 50 سے زائد بینک اکاؤنٹس استعمال کیے گئے، جن کی نشاندہی کے بعد ان کو منجمد کرنے کے لیے متعلقہ بینک کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
ایک ضلع کے اکاؤنٹس میں 5 سال میں 40 ارب کہاں سے آئے؟
نیب افسر سے جب سوال کیا گیا کہ ایک وہ بھی کوہستان جیسے پسماندہ ضلع کے بینک اکاؤنٹس میں پانچ سال کے دوران 40 ارب روپے کیسے آئے، تو ان کا کہنا تھا کہ موصولہ شکایات کے مطابق بڑے پیمانے پر خردبرد کا معاملہ تھا، تاہم نیب کی ٹیم اب معاملے کی چھان بین کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوہستان میں ڈیم کا میگا پراجیکٹ جاری ہے، جس میں زمین اور دیگر ادائیگیوں کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ معاملہ نیب انکوائری مکمل ہونے کے بعد واضح ہو گا۔
’یہ اربوں کی خردبرد کا معاملہ ہے اور اس میں صرف کوہستان کی سطح پر ہی نہیں بلکہ صوبائی سطح تک کے بااثر افراد کا بھی ہاتھ ہے، مذکورہ بینک اکاؤنٹس میں مختلف مد میں کئی سالوں سے فنڈز جا رہے تھے اور کوئی احتساب نہ ہونے کی وجہ سے خردبرد جاری تھی۔