مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد جہاں سرمایہ داروں کی دولت کے انبار روزانہ کے حساب سے بڑھنے لگے وہیں محکوم و مجبور مزدوروں کے لیے زندگی مزید سخت ہو گئی۔ مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کے لیے فیکٹریوں کے پہیے دن رات چلنے لگے اور انہیں رواں رکھنے والے مزدوروں کی زندگی کٹھن سے کٹھن تر ہونے لگی۔
سرمایہ داروں کی اس بے رحم دوڑ نے انسانی ہمدردی، احساس اور اخلاقیات کو دن رات چلتے آلات سے یوں کچل ڈالا کہ جیتے جاگتے مزدور کی اہمیت محض ان مشینوں کے بے جان پرزوں سی رہ گئی کہ جب تک چل سکتا ہے چلے ورنہ تبدیل ہونے کو تیار رہے۔
مزدوروں سے دن کے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام لیا جانے لگا، اجرت کا کوئی معیار مقرر تھا اور نہ ہی کوئی ایسے ضوابط جو مزدوروں پر روا اس ظلم کے سامنے بند باندھ سکیں۔
یہی وہ دور تھا جب یورپ اور مغربی دنیا میں سوشلسٹ نظریات نے اپنی جگہ بنانا شروع کر دی اور مزدوروں کی تنظیموں کی بنیاد پڑنے لگی اور اس ناروا جبر کے ستائے ہوئے مزدوروں نے باضابطہ طور پر اپنے حقوق کے لیے جد و جہد شروع کر دی۔
یکم مئی 1886 کو امریکی شہر شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے جمع ہوئے مزدوروں پر پولیس نے گولی چلا دی تھی۔ اس واقعہ کا مقدمہ درج ہوا اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ 21 جون 1886 کو کرمنل کورٹ میں زیر سماعت اس مقدمہ میں مزدوروں کی جانب سے کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے سرمایہ داروں کے نمائندوں نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سماج کو بچانے کے لیے ان مزدوروں کو سزا دی جائے۔ جس پر 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت کی سزا سنا دی گئی۔
ان کے علاوہ کئی اور مزدوروں کو بھی سزائیں سنائی گئیں جس میں رنیبے کو 15 سال قید، شواب اور فلڈن کو عمر قید سنائی گئی۔ ایک مزدور لیڈر لنگ نے قید میں خودکشی کر لی تھی۔
11 نومبر 1887 کو مزدور رہنماؤں اینجل، اسپائز، پارسنز اور فشر کو پھانسی دے دی گئی۔ ان میں سے صرف دو افراد امریکی شہری تھے باقی انگلش، آئرش اور جرمن شہری تھے۔ ان مزدور رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔
1889میں پیرس میں ’انقلاب فرانس‘ کی صد سالہ یاد گاری تقریب کے موقعے پر تجویز رکھی گئی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔
یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لیے اس تجویز کو با قاعدہ طور پر 1891 میں تسلیم کر لیا گیا۔ اب دنیا بھر میں قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یکم مئی کا دن مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
ملکِ خدا داد میں بھی لیبر ڈے پہ چھٹی ہو گی۔ ہر طرف سے بیان جاری ہوں گے۔ مزدوروں کے حق میں سیمنار ہوں گے۔ دھواں دھار تقاریر کی جائیں گی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب محض کھوکھلے الفاظ ہی ہوں گے۔
مزدوروں کے نام پہ برپا یہ تمام شعبدہ بازیاں ’نشستم، گفتم و برخاستم‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
آج جب معاشی تنگ دستی عروج پر ہے اور بے روزگاری کا عفریت انسانوں کو نگلتا جا رہا ہے، وہاں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کو اپنی جان گروی رکھ کر روٹی کمانے والے مزدور کی فکر کہیں نہیں ہے۔ ملک میں بھیک مانگنا تو سہل اور آسان ہے لیکن کسبِ حلال کے ذرائع مسدود ہیں۔
مزدوروں کے نام پہ فنڈز تو کھا لیے جاتے ہیں عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کم سے کم اجرت کا قانون کاغذات میں موجود ہے لیکن اس پہ عمل در آمد کی بات نہ پوچھیے۔
حکومتی و انتظامی امور پر تنقید تو بجا لیکن ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدور کے عالمی دن کے موقع پہ ہم لوگ اپنے طور پر کیا کر سکتے ہیں۔
ہم جو بھکاریوں کے لیے اپنی سخاوت و رحم دلی کے دریا بہا دیتے ہیں لیکن ایک مزدور کے ساتھ حساب کتاب کرتے نہیں تھکتے۔
کیا آج کے دن ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں کہ اپنے جسم کے پسینے کو جلا کر چند لقمے کماتے اپنے ہی جیسے انسانوں کے لیے کچھ راحت مہیا کرسکیں؟
کچھ نہیں تو گلی یا گھر میں کام میں مصروف اپنے ہی جیسے انسانوں کا کچھ بھلا کر دیں۔ چھٹی بھلے نہ دیں کوئی خوشی دے دیں۔ کسی کی کوئی حاجت پوری کر دیں۔ ایک وقت کا اچھا کھانا ہی کھلا دیں۔
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی