امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے اور سابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے کہا کہ ہندوستان اس خطے میں دہشتگردی کا سب سے بڑا مجرم ہے لہٰذا خود کو دہشتگردی سے متاثر ملک کے طور پر پیش نہیں کرسکتا بلکہ اس بار تو اس نے ریاستی دہشتگردی کے ذریعے جس طرح پاکستان میں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا اس کی مثال نہیں ملتی
وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں مسعود خان نے بتایا کہ پاک بھارت فوجی ٹکراؤ کو لے کر 2 امکانات ہیں، ایک یہ کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے اور دوسرا یہ کہ پس پردہ جو سفارتی کوششیں ہو رہی ہیں وہ کامیاب ہوجائیں۔
سابق سفارتکار کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام ان دوںوں امکانات کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جس وقت بھارت نے آزاد کشمیر میں بلال مسجد پر حملہ کیا تو وہ اس سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے اور پھر وہ مسجد گئے اور وہاں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے ملاقات اور تعزیت کی اور اس پوری صورتحال میں اہم بات یہ تھی کہ وہاں موجود تمام لوگوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔
طویل جنگ کی صورت بھارت بڑی قیمت ادا کرنے پر تیار نہیں
کیا بھارت اس جنگی صورتحال اور جنگی فضا میں کمی پر آمادہ نظر آتا ہے، اس سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہا کہ فی الحال بھارت اس جنگی فضا میں کمی پر آمادہ نظر نہیں آتا لیکن وہ بڑی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے اور وہ پاکستان کو آزما رہے ہیں کہ اس کا ردعمل کتنا شدید ہوگا۔
مسعود خان نے مزید کہا کہ بھارت دنیا میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے کہ ہم نے اسرائیل کی طرح سے پاکستان کے خلاف اقدام کیا ہے لیکن اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہوگی تو اس کی زد میں بھارت کی معیشت بھی آئے گی۔ اس وقت ان کی ریاست کے پاس سب سے طاقتور عنصر ان کی کامیاب معیشت ہے لیکن اگر جنگ طول پکڑے گی تو ان کی معیشت پر بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔
مسعود خان نے بتایا کہ کارگل جنگ میں بھارت امریکی صدر کلنٹن کے پاس جا کر گڑگڑایا تھا کہ ہمیں پاکستانیوں سے بچاؤ۔ اسی طرح سے 2019 میں بھارت نے امریکی وزیر خارجہ پومپیو کو رات کو جگایا کہ پاکستانی ہم پر حملہ کرنے والے ہیں اِن کو روکو۔
چین دونوں ملکوں کے درمیان کامیاب ثالثی کرسکتا ہے
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ 2008 ممبئی حملوں کے بعد چین نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی تھی۔ 2008 میں چین کے نائب وزیرخارجہ پہلے پاکستان اور بعد میں ہندوستان گئے تھے اور اس وقت بھی وہ اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات بڑھ رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب کے کونسے ملک دونوں کے درمیان ثالثی کے لیے مؤثر ہوسکتے ہیں، ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ چین کے علاوہ امریکا نے پہلے ہی ثالثی کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں سے بات کی ہے اس کے بعد ہی دونوں مشیروں نے آپس میں بات چیت کی ہے۔
یکطرفہ سفارتکاری کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بحالی کے لیے سفارتکاری کیسے کامیاب ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ یکطرفہ سفارتکاری کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جب تک ہندوستان اپنے رعونت آمیز رویے سے باہر نہیں آتا، اپنے اندرونی سیاسی مقاصد کے لیے اس طرح کی صورتحال کے استعمال سے نہیں رکتا، سفارتکاری کامیاب نہیں ہوسکتی۔
مسعود خان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے جارحیت کی ہے خاص طور پر آبی جارحیت کی ہے، ہمارے اتاشیوں کو نکالا، ہمارے لوگوں کو 24 گھنٹے میں نکلنے کا الٹی میٹم دیا اور کئی جارحانہ اقدامات کیے۔
انہوں نے کہا کہ سفارتکاری تب کامیاب ہوگی جب بھارت مانے کہ اس نے جارحیت کی ہے۔ مسعود خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کو بہت سارے ممالک نے مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے جنگ نہ کرے بلکہ بہت سے ممالک نے اس سے ثبوت بھی مانگا ہے کہ پاکستان اس واقعے میں کیسے ملوث تھا جو وہ نہیں دے سکا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہٹ دھرمی پر بضد رہا۔
سفارتکاری کی کامیابی کے لیے بھارت کو بین الاقوامی عدالت لے جانا چاہیے
پہلگام واقعے کے بعد کیا پاکستان کی سفارتکاری کامیاب رہی؟ اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کی سفارتکاری تب کامیاب ہوگی جب ہندوستان کو بین الاقوامی عدالت لے جایا جائے گا اور وہاں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ ہم نے ابھی اس لمبے سفر کا آغاز کیا ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے مؤقف کو اس طرح بین الاقوامی پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہا تھا لیکن ابھی بھی اس کے بین الاقوامی تعلقات ہیں اور ہمیں قبل از وقت اپنے آپ کو مبارکباد نہیں دینی چاہیے۔
بھارتی مؤقف کو 2016 میں بھی مکمل بین الاقوامی حمایت نہیں ملی تھی اور 2019 میں بھی نہیں ملی لیکن اس بار 2025 میں تو کسی نے بھی بھارت کا یقین نہیں کیا۔ بین الاقوامی میڈیا اور دیگر ممالک ثبوت مانگ رہے تھے جو وہ نہیں دے سکے۔
بین الاقوامی برادری جانتی ہے کہ بھارت کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں
امریکا، یورپ اور خلیجی ریاستوں کے علم میں ہے کہ ہندوستان پاکستان میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتا ہے، اس کو فنانس کرتا ہے، اس کی منصوبہ سازی کرتا ہے، اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ وہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، چینیوں کے خلاف حملے ہوں یا جعفر ایکسپریس کا واقعہ، ہر طرف بھارت کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
ہندوستان اس خطے میں دہشتگردی کا سب سے بڑا مجرم ہے اور خود کو دہشتگردی سے متاثر ملک کے طور پر پیش نہیں کرسکتا بلکہ اس بار تو اس نے جس ریاستی دہشتگردی کے ذریعے پاکستان میں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا اس کی مثال نہیں ملتی، بھارت جنگ کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے اور اس کی مثال صرف اسرائیل میں ملتی ہے کہ جس طرح وہاں سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بیک چینل سفارتکاری کیسے ہوتی ہے؟
اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ہمارے قومی سلامتی کے مشیر کی بھارت میں اپنے ہم منصب سے بات ہوئی ہے لیکن اس کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہندوستان مان جائے۔ لیکن پاکستان نے اپنا ایک حق بھی محفوظ کیا ہے کہ ہم لوگ مخصوص وقت پر، مخصوص جگہ پر اس کا جواب دیں گے۔
مسعود خان کا کہنا تھا کہ بیک چینل سفارتکاری میں 2 ممالک اپنے مخصوص نمائندے مقرر کرتے ہیں جو بات چیت کرتے ہیں کیونکہ حالت جنگ میں کھلے عام بات کرنا مناسب نہیں لگتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کثیرالقومی فورمز کو استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ طاقتور ممالک ثالثی کروائیں اور اس وقت سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت بیٹھ کر بات کریں اور ہم ان سے پوچھیں کہ آپ کس حد تک جانا چاہتے ہیں۔
2019 اور 2025 کی سفارتکاری میں کیا فرق ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ 2019 میں ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ہٹایا تو پاکستان نے اس پر بھرپور ردعمل دیا اور دنیا نے ہندوستان کی مذمت کی تھی اور ساری دنیا کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔ دنیا بھر کی پارلیمنٹس نے بھارتی اقدام کی مذمت کی تھی لیکن اس وقت پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات اور کورونا وبا کی وجہ سے دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹ گئی اور بھارت نے کشمیر میں ہندو آباد کرنے شروع کردیے لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس بار ایک دفعہ پھر مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں اُجاگر ہوا ہے لیکن ہمیں اس موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے اندر اتفاق و یگانگت پیدا کرنا ہوگی۔
سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کو ورلڈ بینک کے پاس جانا چاہیے۔ ہندوستان نے غیر قانونی اقدام کیا ہے، بین الاقوامی قانون کے مطابق اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کیا جاسکتا اور صرف دونوں فریقوں کی رضامندی سے اسے ایک نئے معاہدے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، لہٰذا ہمیں یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں مسلسل اٹھانا چاہیے بلکہ ہم اس مسئلے کو عالمی عدالتِ انصاف میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس مسئلے کے لیے ہمیں بیک چینل سفارتکاری بھی جاری رکھنی چاہیے۔