ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ

بدھ 14 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی اور تبادلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے متاثرہ 5 ججز کی جانب سے وکیل منیر اے ملک پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ججز کے تبادلے کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے قانون کے مطابق ججز مختلف صوبوں سے تعینات کیے جا سکتے ہیں، تاہم قانون میں تبادلے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے 5 میں سے صرف 2 آسامیوں پر تعیناتیاں کی تھیں، جبکہ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ کمیشن نے ججز مقرر نہیں کیے، اس لیے ہم نے خود ہی تعینات کر دیے۔

مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے

منیر اے ملک کے مطابق ججز کے تبادلوں کی اصل وجہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا وہ خط ہے، جس میں حساس اداروں کی عدالتی امور میں مبینہ مداخلت کی شکایت کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ خط لکھنے کے بعد تمام ججز نشانے پر آ گئے۔ کسی جج کی ڈگری کا مسئلہ نکالا گیا، دوسرے کا بیرون ملک رہائش کا کارڈ نکال لایا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اصل مسئلہ جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کا تھا۔

سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ججز کے خط میں صدر، وزیراعظم یا قانون و انصاف کی وزارت کا کوئی ذکر نہیں، نہ ہی کسی مخصوص جج کا نام لیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ خط میں حساس اداروں کی مداخلت کا ذکر ضرور موجود ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے 6 ججز کا جو خط تھا، وہ حساس اداروں کی مداخلت سے متعلق تھا، مگر موجودہ ججز کے تبادلوں سے حساس اداروں کا تعلق کیا بنتا ہے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا سیکیورٹی اداروں نے سارا نظام ختم کر کے خود کنٹرول سنبھال لیا ہے؟

مزید پڑھیں: لاہور بار ایسوسی ایشن نے ججز کا تبادلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

اسی تسلسل میں جسٹس شاہد بلال حسن نے ایک بار پھر استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں ماضی میں بھی ججز کا تبادلہ ہوتا رہا ہے؟ اور اگر ہوا تو کیا ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف لیا تھا؟

منیر اے ملک نے اس پر دلیل دی کہ آرٹیکل 200 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے کبھی کسی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوا، ماضی میں جتنے بھی ججز دوسری ہائیکورٹس سے یہاں آئے، وہ آرٹیکل 193 کے تحت تعینات ہوئے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر سے متعلق آئین کی 3 شقیں – آرٹیکل 193، 197 اور 200 – اس معاملے کو کور کرتی ہیں، جبکہ حلف کے متعلق صرف آرٹیکل 194 کی ذیلی شق بات کرتی ہے۔ قانون سازوں نے کسی اور جگہ حلف کا ذکر نہیں کیا، اور آئین کے تحت چیف جسٹس ہائیکورٹ ہی نئے ججز سے حلف لیں گے۔ اس پر منیر اے ملک نے تائید کی اور کہا کہ وہ بھی یہی کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے نکتہ اٹھایا کہ اگر ایک جج اپنی ہائیکورٹ میں سینیئر ترین ہے اور وہ کسی ایسی عدالت میں ٹرانسفر ہو کر جائے جہاں پہلے ہی 20 ججز موجود ہوں، تو وہ جج سینیارٹی لسٹ میں سب سے نیچے آ جائے گا۔ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں ایسے جج کو جانا ہی نہیں چاہیے۔ جسٹس مظہر نے تبصرہ کیا کہ وکیل کے دلائل سے تو لگتا ہے جیسے ٹرانسفر دراصل نئی تعیناتی کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: جج کا تبادلہ محض ایگزیکٹو ایکشن نہیں ہو سکتا، منیر اے ملک

ایک اور نکتہ جسٹس نعیم اختر افغان کی جانب سے اٹھایا گیا کہ کیا 3 ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے ججز کی آسامیاں خالی ہو چکی ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا دونوں ہائیکورٹس میں الگ الگ سینیارٹی لسٹس برقرار رہیں گی؟

منیر اے ملک نے بھارتی آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جب کوئی جج ٹرانسفر ہوتا ہے تو اس کی نشست خالی سمجھی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔ یہاں صرف اس وقت نشست خالی ہوتی ہے جب کوئی جج استعفیٰ دے یا اسے ہٹایا جائے۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے منیر اے ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے 13 سالہ عدالتی کیریئر میں کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ آج تک مجھ سے کسی نے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، جب کہ منیر اے ملک اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp