’انکل سرگم‘ پُتلا نہیں ضمیر کی آواز تھا

بدھ 14 مئی 2025
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وہ صرف پُتلا نہیں تھا، ضمیر کی آواز تھا۔ وہ صرف بچوں کا ساتھی نہیں تھا، بڑوں کا آئینہ بھی تھا۔ وہ انکل سرگم تھا ۔ ۔ ۔ اور اس کے پیچھے کھڑا تھا ایک فنکار، ایک معلم، ایک باشعور مزاح نگار فاروق قیصر۔

فاروق قیصر کو ہم صرف انکل سرگم کے خالق کے طور پر یاد نہیں کرتے، بلکہ ایسے فنکار کے طور پر بھی یاد رکھتے ہیں جس نے سچ کو خندہ پیشانی سے بیان کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان کی تخلیق، ان کا قلم، ان کی آواز، سب نے مل کر ایک ایسی شخصیت تراشی جو آج بھی ہمارے معاشرتی شعور میں زندہ ہے۔

انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی، پھر رومانیہ میں پتلی تماشے کی تربیت لی اور امریکا سے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا یہ سفر ہی دراصل ’انکل سرگم‘ کے فکری قد کا مظہر ہے، ایک ایسا کردار جو صرف ہنساتا نہیں بلکہ آئینہ بھی دکھاتا ہے۔

1976 کا وہ دور جب ’کلیاں‘ پروگرام نے پاکستان ٹیلی وژن پر آنکھ کھولی، ٹی وی اسکرین پر نیا اندازِ فکر متعارف ہوا۔ انکل سرگم، مہمان چاچا، شفیق، اور بے بے شکرپیں جیسے کردار صرف بچوں کے ساتھی نہ تھے بلکہ سماج کی ترجمانی کرنے والے کردار تھے۔

شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ پُتلا ’انکل سرگم‘ سماجی ناانصافی، کرپشن، جھوٹ، منافقت اور اقتدار کی بے حسی کے خلاف مضبوط علامتی کردار بن جائے گا۔ وہ سب کردار گویا ہمارے اردگرد کے معاشرتی کرداروں کی پُتلی نما شکلیں تھیں۔ انکل سرگم کا یہ جملہ ’اوئے شفیق! تُو نے وہی حرکت کی جو حکمران ہر بار کرتے ہیں، منہ سے کچھ، دل میں کچھ‘۔

مزید پڑھیں: ایک تھا جلیانوالہ باغ

انکل سرگم کی زبان پنجابی مٹھاس لیے ہوتی، مگر اس میں طنز کی تلخی بھی شامل تھی۔ وہ عوام کی محرومیوں پر مسکراتے ہوئے سوال اٹھاتے، اور بچے جو اکثر عامیانہ لطائف کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے وہ تہذیب اور تفکر کا ذریعہ بن جاتے تھے۔ ان کی تخلیق کردہ دنیا ایک مثال ہے کہ کیسے مزاح اور تہذیب کو اکٹھا پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا فن سستا نہیں تھا، سچا تھا۔ ان کا انداز بلند آہنگ نہیں، بامعنی تھا۔

آج کی دنیا میں طنز اکثر بدتہذیبی سے جاملتا ہے، لیکن فاروق قیصر نے مزاح کو شائستگی کا لباس پہنایا۔ ان کے مکالمے دل کو چھوتے تھے، مگر کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ ان کا مخصوص لہجہ، معصوم شوخی، اور سب سے بڑھ کر طنز میں لپٹی سچائی، ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فن صرف دل بہلانے کا نام نہیں، دل جگانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ’جب بھی حکومت بدلتی ہے، صرف تصویر بدلتی ہے، فریم وہی رہتا ہے۔‘

فاروق قیصر صرف پُتلی ساز نہیں تھے، وہ ایک استاد بھی تھے، ایک کارٹونسٹ، ایک کالم نگار، اور سب سے بڑھ کر معاشرتی نبض شناس۔ ان کے تخلیق کردہ کارٹون اخبار کی سب سے مختصر، مگر سب سے زیادہ جامع خبر ہوتے تھے۔

مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

پی ٹی وی کے 2010 کے ایک یادگار انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے بچوں کو کتابوں سے دور اور اسکرین کے قریب کردیا ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اسکرین پر وہ دکھائیں جو کتاب سکھاتی ہے۔‘

گوگل نے یکم نومبر 2023 کو فاروق قیصر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنے ہوم پیج پر خصوصی ڈوڈل (Doodle) جاری کیا۔

14 مئی 2021 وہ دن تھا جب یہ آواز خاموش ہوگئی۔ مگر وہ پُتلا، وہ الفاظ، وہ انداز آج بھی ہر اس انسان کو یاد ہے جو کبھی ’کلیاں‘ کے سائے میں ہنسا تھا، یا کسی کارٹون میں اپنا حال دیکھ کر چونکا تھا۔

آج جب ان کی چوتھی برسی ہے، سوچتا ہوں کہ انکل سرگم ہمارے درمیان ہوتے تو ٹی وی پر یہ کہتے ’اوئے شفیق! انکوائری کمیٹی بن گئی ہے، اب حقیقت مرنے سے پہلے دو دفعہ اور مرے گی۔‘ فاروق قیصر نے انکل سرگم کی زبان میں وہ سب کہہ دیا جو ایک عام پاکستانی صرف سوچ سکتا تھا۔

انکل سرگم چلے گئے، مگر جب بھی کوئی ہنسی کے پردے میں سچ کہتا ہے، وہیں کہیں پسِ منظر میں انکل سرگم مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کوئی بچہ ٹی وی پر چیختے چلاتے کرداروں سے الجھتا ہے، تو ہم فاروق قیصر کو یاد کرتے ہیں، کہ ایک زمانہ تھا جب اسکرین تہذیب سکھاتی تھی۔ فاروق قیصر کو سلام، جو اپنے فن سے جیتے رہے، اور اپنے کردار سے آج بھی زندہ ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp