بھارت کی جانب سے 300 سے زائد افراد کو بنگلہ دیش میں دھکیلنے پر تشویش کی لہر

پیر 19 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس نے 7 اور 9 مئی کے درمیان تقریباً 300 سے زائد افراد کو زبردستی سرحد پار بنگلہ دیش میں دھکیل دیا ہے، جس سے بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز سمیت سفارتی حلقوں میں ہل چل مچ گئی ہے۔

اس نوعیت کی انسانی دخل اندازی بنگلہ دیش کے 6 مختلف اضلاع میں سرحد کے ساتھ متعدد مقامات پر ہوئی ہیں، جس نے کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں ہندوستانی فوجی حملوں کے بعد پہلے سے بڑھی ہوئی علاقائی کشیدگی کے درمیان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی حملوں کے خلاف بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا پاکستان کی حمایت کا اعلان

بارڈر گارڈ بنگلہ دیش، مقامی پولیس اور انتظامی حکام کے مطابق سرحد پار بھیجے گئے افراد میں نہ صرف بنگلہ دیشی شہری بلکہ روہنگیا اور ہندوستانی شہری بھی شامل ہیں۔

شناخت کے اس پیچیدہ امتزاج نے صورتحال میں الجھن کا اضافہ کیا ہے، جس سے قانونی حیثیت، ارادے اور بین الاقوامی اصولوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھ رہے ہیں۔

جانچ کے تحت قانونی حیثیت

ڈھاکہ میں حکام ان یکطرفہ کارروائیوں کے جواز اور محرکات دونوں پر سوال اٹھا رہے ہیں، قومی سلامتی کے مشیر خلیل الرحمان نے، جو روہنگیا کے مسائل پر عبوری حکومت کے فوکل پرسن کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، 7 مئی کو صورتحال پر بات کی۔

’ہم ہر کیس کا انفرادی طور پر جائزہ لے رہے ہیں، اگر کوئی بنگلہ دیشی شہری ثابت ہوتا ہے تو ہم اسے قبول کر لیں گے لیکن یہ رسمی اور قانونی ذرائع سے ہونا چاہیے، یہ دھکا لگانا درست طریقہ کار نہیں ہے۔‘

ان کے تبصروں کے بعد بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کی طرف سے بھارت کو ایک رسمی خط بھیجا گیا، جس میں گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس طرح کی سرگرمیوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ’بنگلہ دیش اور ہندوستان کی سرحد پر امن اور استحکام کی خاطر، اس طرح کے دھکے ناقابل قبول ہیں۔‘

مزید پڑھیں: بھارت نے اپنے ہی 66 شہری بنگلہ دیش میں دھکیل دیے

وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق، یہ کارروائیاں کئی موجودہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں، جن میں 1975 کے ہندوستان بنگلہ دیش مشترکہ سرحدی رہنما خطوط، 2011 کا مربوط بارڈر مینیجمنٹ پلان اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش اوربھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے درمیان دو طرفہ میٹنگوں کے دوران طے شدہ پروٹوکول شامل ہیں۔

جان بوجھ کر سیاسی پیغام؟

ماہرین کا خیال ہے کہ اس پیش رفت میں سرحدی انتظام سے بڑھ کر پوشیدہ معاملات ہیں، سیاسی تجزیہ کار اور شاعر فرہاد مظہر، سابق سفارت کار ایم ہمایوں کبیر، جنوب مشرقی ایشیا کے مورخ الطاف پرویز، ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر امتیاز احمد، اور ہجرت کے ماہر آصف منیر سبھی نے اس بات پر زور دیا کہ مشتبہ شناخت کے شہریوں کو دھکیلنے کے واقعات وسیع تر سیاسی اور تزویراتی تحفظات کی عکاسی کرتے ہیں۔

فرہاد مظہر نے خاص طور پر ان واقعات کو قصداً اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس نوعیت کے واقعات علاقائی اتار چڑھاؤ کے وقت بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دینے کی ہندوستان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردیں

’جنگ اور فرقہ وارانہ بدامنی کے اس ماحول میں، ایسا لگتا ہے کہ بھارت سرحدی بحران کی کسی نہ کسی شکل کو جنم دینے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ ایک بیانیہ بنا رہے ہیں جو بنگلہ دیش میں بدامنی کو پاکستان کے عسکریت پسندوں سے جوڑتا ہے، اس کہانی کی بنیاد پہلے ہی نظر آ رہی ہے۔‘

عوامی لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بھارت میں قانونی حیثیت کے بغیر رہنے کی اجازت کیوں ہے؟ انہیں واپس کیوں نہیں بھیجا جا رہا؟ فرہاد نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آرمی چیف وقار الزمان اور اہم اسٹیک ہولڈرز سمیت قومی سلامتی کونسل کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب محقق الطاف پرویز نے بنگلہ دیش کی جانب سے اتفاق رائے سے مشترکہ جواب دینے کے لیے آل پارٹیز اجلاس بلانے کی سفارش کی ہے۔

ہم آہنگی کا ایک نمونہ؟

جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست پر اپنی تحقیق کے لیے مشہور الطاف پرویز نے اس نظریے کی حمایت کی کہ سرحد پار سے لوگوں کو بنگلہ دیش میں دھکیلنے کے واقعات بے ترتیبی سے بہت دور سوچے سمجھے تھے، ان کے مطابق یہ صرف ایک جگہ پر نہیں ہو رہا ہے، بلکہ یہ واقعات متعدد بارڈر پوائنٹس پر ہو رہے ہیں۔

’اس سے واضح ہم آہنگی کی نشاندہی ہوتی ہے، جن میں سے کچھ کا دعویٰ ہے کہ انہیں گجرات جیسے دور دراز مقامات سے لایا گیا تھا، انہیں کھاگڑہ چھڑی یا ستکھیرا تک لے جانا اور انہیں زبردستی اندر دھکیلنا معمول کی سرحدی کارروائی نہیں ہوسکتی، یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اٹھایا گیا اقدام ہے۔‘

مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی، بنگلہ دیش کے عوام کیا کہتے ہیں؟

الطاف پرویز سمجھتے ہیں کہ اس نوعیت کے لوگوں کو دھکیلنے کے واقعات اسی روز شروع ہوئے جب پاکستان پر ہندوستان نے حملے کیے تھے، ان کے مطابق ان وقعات کو اتفاقیہ دیکھنا مشکل ہے، یہ ایک نپا تلا اقدام لگتا ہے جس کا مقصد ہماری سرحد پر مسلسل فوجی کشیدگی پیدا کرنا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس طرح کی کارروائیوں کو روکا نہ گیا تو اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ’اگر دونوں ممالک پُش اِن اور پُش بیک آپریشنز شروع کرتے ہیں تو تناؤ بڑھے گا، انڈیا کو یہ معلوم ہوگا، یہی وجہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر پہلا قدم ہے۔‘

انسانی تحفظات اور قانونی ذمہ داریاں

سابق سفیر ایم ہمایوں کبیر نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ہندوستان مخصوص افراد کو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی مانتا ہے تو پھر اسے سفارتی پروٹوکول کی پیروی کرنی چاہیے، بنگلہ دیشی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا اگر کوئی شک ہے تو ہندوستان کو بنگلہ دیش کو باضابطہ طور پر مطلع کرنا چاہیے۔

’ہماری حکومت پھر ان کی شناخت کی تصدیق کر سکتی ہے، لیکن اس عمل سے گریز کرنا اور یکطرفہ شکوک و شبہات پر عمل کرنا نامناسب اور خطرناک بھی ہے اور اس نوعیت کے بھارتی اقدامات کا موجودہ پیمانے کی نظیر نہیں ملتی۔‘

مزید پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15 سال بعد سفارتی بات چیت کا انعقاد

ہمایوں کبیر نے بنگلہ دیشی حکومت کو ان بھارتی اقدامات کا سختی سے جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان دو طرفہ میکانزم کا احترام نہیں کرتا ہے تو، بنگلہ دیش کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو مسترد کر دے جو اس کے شہری نہیں ہیں۔

ہجرت کے ماہر آصف منیر نے کہا کہ ایک ملک میں عدم استحکام کا اثر لامحالہ اس کے پڑوسی ممالک پر پڑتا ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ ’اس معاملے پر سرحدی افواج اور رسمی سرکاری چینلز دونوں کے ذریعے، تیز ترین سفارتکاری ضروری ہے۔‘

یہ کون لوگ ہیں؟

معروف بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر امتیاز احمد نے فوری طور پر مشترکہ تصدیق کی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا، ان کے مطابق پہلا قدم ان افراد کی قومیت کا تعین کر رہا ہے۔ اگر وہ بنگلہ دیشی ہیں تو انہیں واپس لینا چاہیے۔

’اگر نہیں، تو ہمیں یہ واضح کرنا چاہیے، خاص طور پر اگر کچھ روہنگیا ہیں۔ اس صورت میں بھارت کو انہیں بنگلہ دیش میں دھکیلنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

پروفیسر امتیاز نے زور دیا کہ فیلڈ لیول پر معاملے کو حل کرنے میں ناکامی اس معاملے کو سفارتی سطح پر بڑھاسکتی ہے، اگر بی جی بی اور بی ایس ایف کے درمیان فلیگ میٹنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بنگلہ دیش کو ہندوستان کے ہائی کمشنر کو طلب کرنا پڑ سکتا ہے یا خارجہ سکریٹری کی سطح پر بھی اس معاملے کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

اتحاد کی دعوت

دریں اثنا، سیاسی پلیٹ فارم راشٹر سنسکار انڈولن نے لوگوں کو دھکیلنے کے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں سوچا سمجھا اور مربوط اقدام قرار دیا ہے، اس سیای اتحاد نے الزام لگایا کہ ہندوستان اس بحران کو بنگلہ دیش پر جغرافیائی سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

’یہ ایک الگ تھلگ سرحدی مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے جو بھارت کے پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور خطے میں اس کے بدلتے ہوئے موقف سے منسلک ہے۔‘

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت کی عبوری نوعیت صورتحال میں پیچیدگی کی ایک اور تہہ کا اضافہ کرتی ہے۔ الطاف پرویز نے نشاندہی کی کہ منتخب پارلیمنٹ کے بغیر عبوری حکومت کو فوری طور پر آل پارٹیز اجلاس طلب کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے تحفظات سامنے آگئے

الطاف پرویز نے اسے قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وسیع سیاسی اتفاق رائے کے بغیر اس سے نمٹنا خطرناک ہوگا، دوسری جانب اس مسئلے پر اتحاد سے بنگلہ دیش کی پوزیشن سفارتی طور پر بھی مضبوط ہوگی۔

جیسے صورتحال واضح ہوتی جارہی ہے، ایک چیز سب سے بڑھ کر واضح ہے کہ یہ کوئی عام سرحدی جھگڑا نہیں ہے، مبینہ طور پر مشتبہ شہریوں کو سرحد پار دھکیلنے کے واقعات کا وقت، پیمانہ اور نوعیت ایک وسیع جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور جب تک اس پر فوری، سفارت کاری اور اتحاد کے ساتھ توجہ نہ دی جائے، اس مسئلے کے دونوں ممالک پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp