جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کی سمریوں پر ایک ہی روز میں پراسس مکمل کیا گیا، جسٹس شکیل احمد نے دریافت کیا کہ کیا آئین و قانون میں ایک روز میں پراسس مکمل کرنے پر کوئی پابندی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر
اس موقع پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ فائلوں کو پہئیے لگانے کا کہا جاتا ہے لیکن ججز ٹرانسفر میں تو فائلوں کو راکٹ لگا دیے گئے، شوکت صدیقی کیس میں بھی ایک روز میں سارا پراسس مکمل کیا گیا تھا، اتنی جلد بازی کےمقاصد کچھ اور ہوتے ہیں،
حامد خان نے عدالت کوبتایا کہ بلوچستان ہائیکورٹ میں قائمقام چیف جسٹس نے رضامندی دی، چیف جسٹس آف پاکستان سے سب سے آخر میں منظوری لی گئی، یکم فروری کو تیار ہونے والی سمری میں پہلی مرتبہ حلف برداری اور سینیارٹی کا ذکر کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ
جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان سے کہا کہ چاہتے ہیں کہ آپ آج دلائل مکمل کرلیں، جس پر حامد خان بولے؛ اس عمر میں دو بجے کے بعد کام کرنا مشکل ہے، کل اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ساری بات ایک ہی جج پر ہو رہی ہے، باقی ججز نے کسی کی سینیارٹی متاثر نہیں کی تو کوئی بات نہیں کررہا، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ کل اپنی تحریری معروضات بھی جمع کروا دیں گے۔
کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔