اسلامی تعاون تنظیم یعنی او آئی سی نے جدہ میں اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں بحران سے متاثرہ سوڈان میں جان لیوا فوجی جھڑپوں میں اضافے کے بعد حالیہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کے بعد متحارب فریقین سے جنگ بندی سمیت انسانی جان کے احترام کا تقاضا کیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی دعوت پر طلب کیے گئے اپنے ہنگامی اجلاس کے دوران او آئی سی نے بحران کو فوری طور پر پرامن طریقوں سے حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے سوڈان میں یکجہتی کا مطالبہ کیا اور اس ضمن میں سوڈانی شہریوں کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
اجلاس کے آغاز پر اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہ حسین ابراہم طٰحہ نے اجلاس میں شریک ممالک کو یقین دلایا کہ موجودہ لڑائی کو روکنے، پرامن طریقے سے آگے بڑھنے، اور ضروری انسانی مدد فراہم کرنے کے لیے آپ کی سفارشات پر عمل کرے گا، جس میں مناسب وقت پر اعلیٰ سطحی وفد سوڈان بھیجنا بھی شامل ہے۔
جنگ بندی اور تنازعات کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے، حسین ابراہم طٰحہ کا کہنا تھا کہ وہ سوڈان میں استحکام کے حصول کی کوششوں میں ہاتھ بٹانے کے اپنے عزم کے ساتھ او آئی سی کے رکن ممالک اور علاقائی اور عالمی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت جاری رکھیں گے۔
Opening session of the #OIC emergency executive committee meeting to discuss the developments in the republic of #Sudan. https://t.co/pUTiZgCtr8
— OIC (@OIC_OCI) May 3, 2023
او آئی سی کے اجلاس نے سوڈان کے استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنے اور اس کی خودمختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کی اہمیت کی بھی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسی طرح موجودہ صورتحال میں سوڈان کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنا ممکن ہوگا۔
او آئی سی نے زخمیوں اور پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے امداد کی فراہمی، شہریوں اور سفارتی مشن کے انخلاء سمیت محفوظ انسانی ہمدردی سے لبریز ایک راہداری کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے جنگ بندی کے عزم پر بھی زور دیا۔
او آئی سی نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں فوجی کشیدگی کے فوری خاتمے اور سوڈانی عوام کی صلاحیتوں اور فوائد کے تحفظ کے لیے قومی مفاد کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا۔ اجلاس نے سوڈان سے شہریوں کے محفوظ انخلاء کے لیے سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی اہم کوششوں کو بھی سراہا۔
او آئی سی کے اجلاس نے سوڈانی شہریوں اور علاقائی جماعتوں کے ساتھ فوری جنگ بندی تک پہنچنے اور افریقی ملک کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے امن کی راہ پر واپس آنے کے لیے سعودی عرب کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔
سوڈان کا بحران
سوڈان بھر میں فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان شدید لڑائی نے شہری حکمرانی کی پرامن منتقلی کی امیدیں دم توڑ دی ہیں۔ دو حریف جرنیلوں کی وفادار افواج ملک پرکنٹرول کے لیے برسر پیکار ہیں، جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سوڈان میں جاری اس بدامنی میں اب تک کم از کم 459 افراد ہلاک اور 4000 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جب کہ دارالحکومت خرطوم کے کچھ حصے جنگی علاقے بن چکے ہیں۔
اسی طرح 3 لاکھ 34 ہزار شہری اب تک اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں لوگ سوڈان سے فرار ہو کر جنوبی سوڈان، چاڈ، مصر اور ایتھوپیا چلے گئے ہیں۔
طاقت کی کشمکش
سوڈان میں بھڑکنے والی اس جنگ کے دو مرکزی کردار ہیں: سوڈان کے فوجی حکمران اور فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اور نیم فوجی گروپ ریپڈ سپورٹ فورسز یعنی آر ایس ایف کے سربراہ جنرل محمد ہمدان داغلو، جنہیں بڑے پیمانے پر ہمدتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل یہ دونوں جنرل اتحادی تھے جنہوں نے 2019 میں معزول سوڈانی صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے لیے 2021 کی فوجی بغاوت میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم سویلین حکمرانی کی بحالی کے منصوبوں کے حصے کے طور پر RSF کو ملک کی فوج میں ضم کرنے کے لیے مذاکرات کے دوران تناؤ پیدا ہوا۔
جس کے بعد دونوں دھڑوں کے درمیان مسلح دشمنی کا آغاز ہوا جسے دونوں فریقین سوڈان پر اپنے تسلط کے لیے ایک نوعیت کی وجودی لڑائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔