ناٹنگھم سے لاہور تک سفر کے لیے کیسے قائل کیا؟ سکندر رضا کے والد نے کہانی سنادی

جمعرات 29 مئی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان سپر لیگ 10 (پی ایس ایل) کے فائنل میچ میں لاہور قلندر کی شاندار کامیابی کے پیچھے جہاں کھلاڑیوں کی محنت کارفرما تھی، وہیں کچھ ایسی کہانیاں بھی موجود تھیں جو جذبے، دعا اور وابستگی کی ایک منفرد مثال بن گئیں۔ انہی میں سے ایک کہانی سکندر رضا کی ہے، جنہیں ان کے والد نے ناٹنگھم سے لاہور آ کر ٹیم کے لیے فتح کی بنیاد رکھنے پر قائل کیا۔

سکندر رضا کے والد تصدق حسین رضا نے بتایا کہ ان کی پوری فیملی لاہور قلندر سے دلی وابستگی رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فائنل کے روز ہمارے گھر میں ہر کوئی دعا میں مصروف تھا، کوئی جائے نماز پر بیٹھا تھا، کوئی تسبیح کے دانے گن رہا تھا، اور سب کی نگاہیں سکندر رضا پر جمی تھیں۔ خاص طور پر اس کی دادی بہت دعاگو تھیں۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل فائنل، ٹاس سے محض 10 منٹ پہلے اسٹیڈیم پہنچنے والے سکندر رضا کی دلچسپ کہانی

انہوں نے ایک جذباتی لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب ٹیسٹ میچ ختم ہوا تو وہ اپنے پرانے کلاس فیلو، کرکٹر عبداللہ شفیق کے والد کے ساتھ موجود تھے۔ اسی لمحے انہوں نے سکندر رضا کو پیغام بھیجا کہ ٹیسٹ میچ کا اختتام ایک اشارہ ہے، اللہ تعالیٰ تم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے، جا بیٹا، لاہور قلندر کی ٹرافی اپنے ہاتھوں میں اٹھا لا۔

والد کے مطابق، سکندر رضا کو لاہور قلندر سے جو محبت ہے، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ وہ اکثر گھر پر ثمین رانا (لاہور قلندر کے سی ای او) کی باتیں شیئر کرتے اور ٹیم کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سکندر رضا کو پیسوں کے لیے کھیلنے کا طعنہ دینے پر عماد وسیم تنقید کی زد میں

انہوں نے بتایا کہ سکندر رضا نے انہیں فائنل میچ دیکھنے کے لیے دعوت دی تھی، مگر وہ اس لیے نہیں گئے کہ کہیں لاہور قلندر ہار نہ جائے، کیونکہ اس صورت میں سکندر کو ہونے والا دکھ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔

سکندر رضا کے والد نے کہا کہ اس نے میدان میں ثابت کر دیا کہ وہ لاہور قلندر کے لیے ایسے کھیلتا ہے جیسے کوئی سپاہی اپنے وطن کے لیے لڑتا ہے۔

مزید پڑھیں: زمبابوے میں دلوں پر راج کرنے والے پاکستانی نژاد کرکٹر سکندر رضا کون ہیں؟

یاد رہے کہ سکندر رضا بٹ 24 اپریل 1986 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، پاکستانی نژاد اور زمبابوے کے بین الاقوامی کرکٹر ہیں۔ 2002 میں اپنے خاندان کے ساتھ زمبابوے منتقل ہونے کے بعد وہ جلد ہی مقامی سطح پر نمایاں بلے باز بن گئے، اور 2011 میں شہریت کے مسائل حل ہونے کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بنے۔

لاہور قلندر کی جانب سے سکندر رضا کی وابستگی اور کارکردگی نے انہیں نہ صرف ایک کھلاڑی بلکہ ایک جذباتی نشان بنا دیا ہے، جو میدان سے باہر بھی اپنے گھر والوں، مداحوں اور ٹیم کے لیے دل سے کھیلتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp